یو ٹرن اور پکّا راگ

یو ٹرن اور پکّا راگ
یوں تو پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے بڑے بڑے نابغہ ء روزگار آئے یا لائے گئے لیکن سیاسی نظام سے لیکر معاشرتی مسائل تک جو کنفیوژن ”عمران خان میں پائی جاتی ہے اسکی مثال پہلے نہیں ملتی۔ یہ اسی کنفیوژن کا ردِّعمل ہی ہے جس کے نتیجے میں عمران خان کو اپنے بیانات اور پالیسیوں میں حیران کن ”یو ٹرن“ لینے پڑتے ہیں۔ جس سے ایک سنجیدہ سیاستدان کے طور پر انکے امیج کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن کو چور ڈاکو اور لٹیرے کہہ کر اپنی ناکامیوں کا ملبہ اُن پر ڈالنا وہ واحد بیان ہے جس میں وہ ” یوٹرن“ نہیں لیتے بلکہ اس مستقل ”پکےّ راگ“ کو گانے کے لیے اُنہوں کافی غیر منتخب ”گویےّ“ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ جو قوم کے پیسے پر دن رات قوم کو صرف یہ پکّاراگ سناتے ہیں۔ کہ آپ کے تمام مسائل کے ذمہ دار سابقہ حکمران ہیں (ان میں فوجی حکمران شامل نہیں)لہٰذا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

یحیٰ خان کے زمانے میں پاکستانی بیوروکریسی میں یہ بات مشہور تھی کہ یحیٰ خان کے کسی بھی حکم کو شام کے بعد ”سیریس“ نہیں لینا چاہیے۔جبکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (CMLA)کا نیا مطلب یہ مشہور ہوگیا تھا کہ (Cancel my last Announcement)۔ مگر آجکل یہ عالم ہے کہ عمران خان کے کسی بھی وقت کے بیان کو سیریس نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ کسی وقت بھی ”یو ٹرن“ کی نذر ہو سکتا ہے۔

موجودہ حکومت کے تین سالوں میں غلط بیانی، جھوٹے پراپیگنڈے اور ” یوٹرن“ کے وہ شہکار سامنے آئے ہیں کہ پور ی قوم کنفیوژن کا شکار ہوگئی ہے۔ جس کا تازہ شہکار خان صاحب کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے چین کے نظام کو مغربی جمہوریت سے بہتر نظام قرار دے دیا ہے۔ موصوف اس سے پہلے ریاست ِ مدینہ، طالبانی نظام اور مغرب کے نظامِ انصاف کو بھی اپنا فیورٹ نظام قرار دے چکے ہیں اور سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان جیسے اختیارات کی معصومانہ خواہش کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔گویا ایک بات طے ہے کہ وہ پارلیمانی جمہوریت کے علاوہ جو کہ پاکستانی آئین کی اساس ہے ہر اس نظام کے خواہاں ہیں جس میں شخصی آمریت جھلکتی ہو کیونکہ وہ ان کے فطری مزاج کے قریب ہے۔

کرکٹ ٹیم کے کپتان سے لیکر سیاسی کپتان تک ان کی ڈکشنری میں سب سے بڑا لفظ ”میں یا آئی“ ہے۔ جو عقلمندوں کے نزدیک کسی شخص یا معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے۔ انگریزی میں محاورہ ہے کہ "I"is illness and "we" is wellness"یعنی ”میں ایک بیماری ہے“ اور”ہم“ شفایابی۔ اپنے اسی مزاج کی وجہ سے خان صاحب کسی ایسی تقریب میں شرکت کرنا گوارا نہیں کرتے جس میں اپوزیشن شریک ہو۔ حالانکہ قومی مفاد کے لیے اپوزیشن کو ساتھ لیکر ایک قومی بیانیہ تشکیل دینا ملک کے وزیرِ اعظم کا اوّلین فریضہ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے وہ عورتوں کے لباس کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان دے کر تہلکہ مچا چکے ہیں۔ ان کے تاریخ، جغرافیہ اور اعدادوشمار کے معیار بھی اپنے ہی وضع کردہ ہیں۔

جب آٹا 35روپے کلو چینی 55روپے کلو اور باقی روزمرہ استعمال کی اشیاء آج کی نسبت کہیں ارزاں تھیں تو ان کے نزدیک ملک معاشی تباہی کا شکار تھا آج جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری کئی گناہ زیادہ ہو چکی ہے اور غریب طبقے کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو چکا ہے تو ان کے خیال میں ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ان کی بیان کردہ شرح ترقی 4جی ڈی پی اپوزیشن کی 5.8جی ڈی پی سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے دور میں ہونے والے آٹا، چینی، گیس، پیٹرول، مالم جبہ، بی آر ٹی اور فارن فندنگ کے میگا سکینڈلز ان کے احتسابی نعرے سے باہر ہیں۔فیصل واوڈا کو غلط بیانی پر سزا دینے کی بجائے سینٹر بنا دینا، دواؤں کے سکینڈل میں ملوّث عامر کیانی کو پارٹی کا جنرل سیکٹری مقرر کردینا، ندیم بابر، ڈاکٹر ظفر مرزا اور جہانگیر ترین کو این آ راو دسے سرفراز کرنا اُن کے کسی کو این آر او نہ دینے کے ”پکّے راگ“ کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔سینٹ کے انتخابات میں خفیہ کیمرے لگانا، ڈسکہ الیکشن میں کھلی دھاندلی کرنا اور انتخابی اصطلاحات کے بل کو اسمبلی میں بلڈوز کرکے اگلے الیکشن میں دھاندلی کے لیے ووٹنگ مشینوں پر اصرار کرنا انکی یکطرفہ انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا ہے۔ اُن سے گورنر اور وزیرِ اعظم ہاؤس کو یونیورسٹیاں بنانے، پچاس لاکھ گھر اور ایک کڑوڑ نوکریاں دینے کے بارے میں پوچھنا تو بیکار ہے۔ انہوں نے تعلیم کے بجٹ میں جو کٹوتیاں کی ہیں جتنے لوگوں کو بے گھر اور بے روزگارکیا ہے اس کا جواب مانگنا بھی جرم ہے۔شاہ زیب خانزادہ نے 2021میں ہونے والی مہنگائی کے جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں اس کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے دیگر ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش سے کئی گناہ زیادہ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں مہنگائی کا ایک بڑا طوفان آنے والا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اب وہ اپنے ”پکےّ راگ“ اور یو ٹرن پر نظر ثانی فرمائیں تو انکی مہر بانی ہوگی۔

ڈاکٹر خالد جاوید جان ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور شاعر ہیں۔ وہ مشہور زمانہ نظم ’ میں باغی ہوں ‘ کے مصنف ہیں۔