جن احباب کو افغانستان کی تاریخ کا علم نہیں تو ان کی معلومات کے لئے یہاں ایک تاریخی حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
تاریخ میں افغانستان پہ کسی غیر ملکی طاقت یا حکمران نے دو دفعہ حکومت کی ہے۔ ایک اشوک اعظم اور دوسرا اکبراعظم نے۔ اس کے علاوہ افغانستان پہ آج تک کسی نے حکومت نہیں کی ہے۔ اب کچھ دوست کہیں گے بھائی امریکہ نے حکومت کی تو عرض ہے امریکہ نے حکومت نہیں قبضہ کرنے کی کوشش کی جو وہ ناکام و نامراد ہوکے چلا گیا۔
اب آئے ذرا تفصیل سے موجودہ صورت حال پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ امریکی انخلاء کے بعد افغان کا ماضی کیا ہوگا؟ اس پہ ہر کسی نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا جبکہ مختلف قیاس آرائیاں اور خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ہم بھی چند گزارشات اپ کے نظر کردیتے ہیں ۔
امریکی گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان پہ مکمل کنڑول کبھی حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اس کا شہری علاقوں پہ قبضہ رہا جبکہ دیہاتی علاقوں پر طالبان کی حکومت رہی ہے۔ چونکہ افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اس لئے یہاں کوئی منظم اور مضبوط حکومت کبھی نہیں رہی۔ افغانستان کا 11 فیصد علاقہ شہری ہے جبکہ 89 فیصد حصہ دیہاتی ہے اور وہ بھی پاکستانی دیہات کی طرح نہیں۔ افغان کے دیہات ایک خالص قبائلی اور مذہبی ذہنت کے لوگوں پہ مشتمل ہیں۔ جو موجودہ دور میں بھی قرون وسطی جیسی سوچ ہے، پسماندہ قبائلی روایات بہت مضبوط ہے۔
موجودہ طالبان بھی وہ طالبان نہیں رہے جو روس کے خلاف استمال ہوئے تھے۔ اب یہ لوگ گزشتہ بیس سالوں سے امریکیوں سے لڑ کر سمجھ چکے ہیں کہ ریاست چلانے کےلے معاشی و سیاسی نظام بنانا ضروری ہوتا ہے۔ اب جب اچانک امریکہ بھاگ نکلا تو افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ جاتے ہوئے اپنا اسلحہ ساتھ لے کر نہیں گیا بلکہ اسے افغانستان میں چھوڑ کے جا رہا ہے۔ ابھی اگر وہ اسلحہ داعش اور آئی ایس آئی ایس جسے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا تو خطے میں امن کےمسائل پیدا ہوں گے۔ ایسے میں اس خطے کے ممالک کو اس حوالے ضرور اپنی حکمت عملی بنانا ہوگی۔ پاکستان، ایران، روس، چین، تاجکستان، ازبکستان سمیت دوسرے ممالک اس وقت افغانستان کے معاملے پر بہت سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں ۔وہ کسی صورت افغانستان میں خانہ جنگی ہونے نہیں دینگے۔ اس حوالے سے اگست کا مہینہ بہت اہم ہے۔ میری رائے میں اگست تک یا اس کے بعد افغانستان میں ایک ایسی حکومت ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں تمام فریق آپس میں مل کے نظام حکومت بنائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو بھی حکومت ہوگی اسے معاشی اور دفاعی سطع پر بھی بہت مشکلات کا سامنا ہوگا۔ کیونکہ افغانستان اس وقت شدید افراتفری اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ مختلف مفادات رکھنے والے وار لارڈز اور مسلح جھتوں کا ایک جنگل بن چکا ہے۔ جسے صاف کرنے میں کچھ عرصہ تو ضرور لگے۔
امید ہے خطے کے ممالک افغانستان کو اس دلل سے نکالنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے اور ایک دفعہ پھر پرامن افغانستان ابھرے گا اور خطے کے ترقی کے لے اپنا کردار ادا کرے گا۔