مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم کرنیوالے نریندرمودی کو امریکی کانگریس سے خطاب کی دعوت، نیویارک کے شہری سراپا احتجاج

مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم کرنیوالے نریندرمودی کو امریکی کانگریس سے خطاب کی دعوت، نیویارک کے شہری سراپا احتجاج
بھارت میں بڑھتے ہوئے انسانیت سوز اور مذہبی انتہا پسندی کے واقعات باوجود امریکی حکومت کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو دوسری بار کانگریس سے خطاب کی دعوت دی گئی ہے جس پر نیویارک کے شہری سراپا احتجاج ہیں۔

امریکی قانون سازوں کی جانب سے نریندر مودی کو رواں ماہ دورہ واشنگٹن کے دوران کانگریس میں خطاب کی دعوت دی گئی۔

سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن رہنماؤں نے گزشتہ روز مودی کو لکھے گئے خط میں دعوت نامے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 22 جون کو ہونے والی بھارتی وزیراعظم کی تقریر دونوں ممالک کے درمیان پائیدار دوستی کا جشن منائے گی۔

https://twitter.com/SpeakerMcCarthy/status/1664630165802983427?s=20

2016 میں امریکی قانون سازوں سے تقریر کرنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہوگا جب مودی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔

انڈین امریکن مسلم کونسل، ہندوس فار ہیومن رائٹس، اور ڈیس رائزنگ اپ اینڈ موونگ جیسے گروپس-دیگر کمیونٹی پر مبنی جنوبی ایشیائی تنظیموں کے ساتھ-وزیراعظم کے ذریعے کیے گئے جمہوریت مخالف اور ہندو بالادستی کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج میں سب سے آگے رہے ہیں۔ نریندرمودی کی امریکا آمد اور کانگریس سے خطاب کی دعوت پر ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے ایک احتجاجی ریلی کا اعلان کیا گیا۔ اعلان میں کہا گیا کہ مودی اور اس کی فاشسٹ حکومت انسانی حقوق خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کو پامال کر رہی ہے، اور اپنے ہندوتوا نظریے کو پوری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔ گروپوں نے نیو یارک سٹی اور ڈی سی میں ریلیوں کا اہتمام کیا ہے اور اظہار یکجہتی  کے لیے فنڈ ریزر کا بھی اہتمام کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے گجرات کے قتل عام میں مودی کے اہم کردار پر ممنوعہ بی بی سی کی دستاویزی فلم کی سکریننگ کی میزبانی کے لیے شراکت داری کی ہے۔

https://twitter.com/DesisRisingUp/status/1671247011193016322?s=20

بھارت میں ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں  کو ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جسے حکمران جماعت بی جے پی کے رہنماؤں کی طرف سے اکسایا جارہا ہے۔امتیازی قانون سازی کی گئی اور ہندوستانی عدلیہ نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

امریکہ میں قائم کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ڈوگ بینڈو نے ایک مضمون میں کہا کہ 2019 میں مودی کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے،بھارتی حکومت نے متنازعہ پالیسیوں کو آگے بڑھایا جو واضح طور پر مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ان پالیسیوں کا مقصد ان لاکھوں مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے جو ملک کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں مذہبی ظلم و ستم میں ڈرامائی طور پر تیزی آئی ہے۔ یہ سب کچھ ہندو بالادستی کو فروغ دینے والی نیم فوجی ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا کیا دھرا ہے۔

ڈوگ بینڈو نے مزید کہا ہے کہ حقیقت میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر بے دریغ تشدد جاری ہے جسے اکثر ریاست کی حوصلہ افزائی پشت پناہی حاصل ہے۔ سب سے زیادہ آبادی والی اقلیت مسلمانوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عیسائی، ایک چھوٹا اور زیادہ کمزور گروہ ہے، اس کے ساتھ بھی وحشیانہ طور پر برا سلوک کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی نے مذہبی منافرت پر مبنی پالیسیاں جاری کر کے سیاسی کامیابی حاصل کی اور ہندو قوم پرستی کو ہوا دے کر ہندوستانی سیاست پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کیا۔

واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ماہ نریندرمودی کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر جو بائیڈن دونوں ممالک کے درمیان گہری اور قریبی شراکت داری کی تصدیق کے لیے ان کی میزبانی کریں گے۔

بائیڈن انتظامیہ نے حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرتے ہوئے نام نہاد 'کواڈ الائنس' کو مضبوط کیا جس میں آسٹریلیا، جاپان، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات شامل ہے۔