سرائیکی صوبہ، خدشات اور امکانات

مُدھر، میٹھی اور مقبول ترین ہونے کے باوجود پاکستان کے چاروں صوبوں میں بولی جانے والی ایک زبان ایسی بھی ہے جسے اپنی سیاسی شناخت منوانے میں ستّر سال لگ گئے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی اکثریت جنوبی اور جنوب مغربی پنجاب میں رہتی ہے جو کم و بیش ساڑھے تین کروڑ نفُوس پر مشتمل ہے۔ یہ زبان سرائیکی ہے۔ اور سرائیکی بولنے والوں کی دیرینہ خواہش اپنے لئے علیحدہ صوبے کی تشکیل ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جنوبی صوبہ محاذ کو اپنی پارٹی میں ضم کرتے ہوئے مئی 2018 میں کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے 100 دن کے اندر اندر نیا صوبہ بنانے کا ابتدائی کام کر ڈالیں گے۔

انتظامی لحاظ سے پنجا ب کے 19 اضلاع میں آباد زیادہ تر لوگ سرائیکی زبان اور ثقافت سے ہی پہچانے جاتے ہیں جس کی ثقافتی اور سیاسی راجدھانی صدیوں سے ملتان رہی ہے۔ لیکن اس وقت بحث اِس کے ثقافتی و لسانی حُسن و تاریخ سے بڑھ  کر سرائیکی جغرافیہ کو مُلک کے وفاق میں ایک آئینی  اور صوبائی حیثیت دینے سے متعلق ہے۔ یہ  مطالبہ پیپلز پارٹی کے دورِحکومت سے کافی سنجیدہ رُخ اختیار کر چکا ہے اور اب اِس قدر اہم ہو چکا ہے کہ اِس کو زیادہ عرصہ ٹالے رکھنا کسی بھی سیاسی پارٹی اور موجودہ حکومت کے لئے بھی ممکن نہیں۔



پاکستان کی تخلیق سے آج تک تمام صوبوں (بشمول سابق مشرقی پاکستان) کو پنجاب کے غالب، امتیازی اور استحصالی رویّہ سے شکایت رہی ہے۔ 21 کروڑ کی مجموعی آبادی کے ملک میں 11 کروڑ کی آبادی کا محض ایک صوبہ رکھنا بذاتِ خود ایک غیر متوازن اور غیر منصفانہ وفاق کی علامت ہے۔ اُس پر مستزاد یہ کہ آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے جو پارٹی بھی پنجاب میں اکثریتی قومی نشستیں حاصل کرتی ہے، وہی مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جاتی ہے۔ مثال کے طو پر قومی اسمبلی کی 272 براہ راست نشستوں میں سے 141 صرف پنجاب سے ہیں اور باقی 131  نشستیں چاروں صوبوں میں منقسم ہیں جو پورے وفاق کو غیر متوازن نمائندگی میں بدل دیتی ہیں۔ باقی صوبوں کی شکایات اپنی جگہ، پنجاب کے اپنے اندرغیر متوازن ترقی کو وفاقی دارالحکومت، تمام اکائیوں اور خود صوبائی راجدھانی یعنی لاہور نے ہمیشہ نظر انداز کئے رکھا ہے۔

مسلم لیگ کے پنجاب پر تسلط، پاکستان تحریکِ انصاف کے سیاسی اور حکومتی مفادات اور پیپلز پارٹی کا سرائیکی صوبے کی تخلیق پر اساسی  اور تاریخی موقف ہونے کی وجہ سے سرائیکی صوبے کے حوالےسے گرما گرم حتٰی کہ مارا ماری کی سیاست ہوتی رہی ہے۔ تاہم نام اور حدود اربع پر ہر پارٹی کا موقف ایک دوسرے سے قدرے یا کافی مختلف رہا ہے جس کا اجمالی جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا:

اجمالاً پیپلز پارٹی سرائیکی شناخت اور سرائیکستان نام کے ساتھ صوبے کی تخلیق سے سہمت نظر آتی ہے جب کہ  مسلم لیگ ن پنجاب میں ایک نئی لسانی و انتظامی شناخت سےایک عرصے تک خائف بلکہ انکاری رہی ہے، تحریک انصا ف بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر اب جا کر محدود اور انتطامی سطح پرمذکُورہ صوبہ بنانے پر رضامند نظر آ رہی  ہے ـ مرکزیت پسندی اور پاکستان میں لسانی شناخت کو کمزور رکھنے کی غرض سے اسٹیبلشمنٹ اس صوبہ کو سرائیکی نام دینے پر ہرگز تیار نہیں ہے کیونکہ ساتھ ہی ایم کیو ایم کا جناح پور یا مہاجر صوبے کا غیر ضروری اورغیر فطری مطالبہ اور جواز بھی سر ا ٹھانے لگتا ہے جس کی ضرورت اور وجہ تسمیہ سے صوبہ سندھ، مرکز اور شاید کوئی بھی سیاسی جماعت یا صوبہ حتیٰ کہ کراچی کی متفرق اور متنوّع آبادی بھی متفق نہیں ہے۔



مفاہمتی انداز و اسلوب اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی مجوزہ صوبے کو صوبہ جنوبی پنجاب کے نام سے ہی تسلیم کرتے ہوئے 2012 میں سب سے پہلے سینیٹ سے ایک بل منظور کروا کے اس کے تقاضے اور ضرورت کو ٹھوس قانونی جواز فراہم کر چکی ہے جس کے بعد اکثریتی رجحان اور جنوبی پنجاب پر مستقبل میں اپنی گر فت ڈ ھیلی پڑتی ہوئی د یکھ کر مسلم لیگ ن نے بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کو ہوا دی اور مئی 2013 میں پنجا ب اسمبلی سے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے دو صوبے بنانے کی ایک قرارداد بھی منظور کروا ڈالی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ  یہ رپورٹس بھی قابل ذکر رہیں کہ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے 18-2013 تک اپنی حکومت کے دوران تمام سرکاری دفاتر میں بالائی پنجاب کے افسران کو فائز کرنا اور سرا ئیکی وسیب میں سرائیکی نام سے ہر طرح کے پوسٹرز، وال چا کنگ، بینرز، سرائیکی چوک اور ہر ایسے نام اور پہچان کو ختم کرنا جاری رکھا جس سے سرائیکی شناخت کو تقویت ملتی ہو اور جہاں جہاں ممکن ہوا، وہاں پنجابی  شناخت اور متحدہ پنجاب کے موقف کو مزید سراہا اورمضبوط کیا بلکہ 2018  کے شروع میں دوبارہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے دو صوبوں کی قرار داد پیش کر کے پیپلز پارٹی کی منظورشدہ قرارداد اور بِل کو کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

پیپلز پارٹی نے جب آئینی ترمیمی بل جو کہ نئے صوبے کی تخلیق کے لئے ضروری ہے، پنجاب اسمبلی میں پیش کیا تو مسلم لیگ نے اسے رد کر دیا۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی رُو سے قومی اسمبلی کسی بھی نئے صوبے کے بِل کو اُس وقت تک سینیٹ اور پھر صدرِ پاکستان کی حتمی منظوری کے لئے نہیں بھیج سکتی جب تک متعلقہ صوبے کی اسمبلی جس میں نیا صوبہ بنانا ہو، وہ دو تہائی اکثریت سے اس کی منظوری نہ دے دے یا پھر قومی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے متعلقہ آرٹیکل (چار) 239 میں ترمیم کرکے یہ اختیار اپنے دائرہ کار میں شامل نہ کر لے۔ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت ساتھ دیتی تو جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ 2012 کے نام سے نیا صوبہ 2013 میں ہی تخلیق کر لیا گیا ہوتا۔



ن لیگ نے اپنے دعوئوں کے برعکس جنوری 2013 میں بھی نئے صوبوں کی تخلیق کے لئے بنائے جانے والے پارلیمانی کمیشن کی  رپورٹ یہ کہہ  کر مسترد کر دی تھی کہ ان کے نمائندے اس کمیشن میں شامل نہیں تھے اور یہ کہ کمیشن صرف ایک صوبہ پر فوکس کر رہا ہے جب کہ وہ خیبر پختونخوا میں بھی ہزارہ صوبہ بنانے کے خواہاں ہیں اور یہ کہ سینیٹ بل اور آئینی ترمیمی بِل درکار پروسیجرکو بالا ئے طاق رکھ  کر ڈرافٹ کیا گیا ہے۔ بعد میں انہوں نے یہ موقف بھی نتھی کر دیا کہ بہاولپور کو الگ صوبائی حیثیت دیے بغیر نئے صوبے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بہاولپور صوبہ بحالی کے حق میں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مسلم لیگ ن کے یکے بعد دیگرے بدلتے ہوئے موقف سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے حق میں نہیں ہے کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ نئے صوبے کی تخلیق سے صوبائی اور قومی نشستوں کی تعداد اور سینیٹ میں نمائندگی کی مساوات بدل جائے گی اور مستقبل میں ان  کی مرکز میں حکومت سازی کے امکانات کم یا نہایت مشکل ضرور ہو جائیں گے، اسی لئے ہر اہم  قانونی و آئینی موڑ پر وہ نیا عذر یا جواز گھڑ کر معاملے کو سرد خانے کی نظر کر دیتے ہیں۔

تحریک انصا ف گزشتہ دس برسوں یعنی 2008 سے 2018 کے دوران زیا دہ مقبول ہوئی ہے۔ اس لئے عوامی مزاج کو سمجھتے ہوئے اس پارٹی نے بھی آہستہ آہستہ جنوبی پنجا ب صوبہ بنانے کا عندیہ دینا شروع کر دیا۔  گزشتہ برس انتخابات سے پہلے دیے جانے والے منشور میں صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں نے اپنے اپنے ایجنڈے میں شامل رکھا۔ تاہم مسلم لیگ ن نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب یعنی دو صوبوں کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ اپریل 2018 میں ن لیگ کے تقریباً آٹھ  ٹکٹ ہولڈرز اور سابقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے ایک منحرف گروپ بنایا جو ایک ہفتے کے اندر اندر تحریک انصاف میں ضم  ہو گیا۔

اب  تحریک انصاف کی حکومت کو سو کی بجائے پونے تین سو دن ہونے کو آئے ہیں۔ تب جا کر عوامی پریشر کے مدِنظر پی ٹی آئی نے ایک ہفتہ قبل تین ڈویژنوں یعنی گیارہ ضلعوں پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ کے نام سےآئینی ترمیمی بِل قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے جس پر ابھی بحث اور اتفاقِ رائے ہونے میں کئی منزلیں باقی ہیں۔ اس بِل کے مطابق  آئین کے آرٹیکل 10,90,101,103  اور 109 میں تبدیلی بھی درکار ہےـ مجوزہ جنوبی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں مجموعی طور پر 120 ہوں گی جب کہ پنجاب اسمبلی کی نشستیں 102 رہ جائیں گی۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے پی ٹی آئی کو کم از کم 228 ووٹ درکار ہیں۔  پی ٹی آئی کے پاس اتحادیوں کو ملا کر بھی محض 107 ووٹ ہیں ۔ پانچ ووٹ ق لیگ کے ہیں اور وہ ن لیگ سے شدید اختلافات کے باوجود پہلے سے ہی بہاولپور صوبے کے لئے واویلا کر رہی ہے اور اس کو یہ بھی شکوہ ہے کہ اس کے ساتھ مشاورت کئے بغیر یہ بِل پیش کیا گیا ہے۔ اس لئے یہ پانچ ووٹ بھی متزلزل ہو سکتے ہیں۔  دوسری جانب مسلم لیگ ن بھی جنوری 2019 میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب گویا دو صوبوں کے لئے آئینی ترمیم بل جمع کروا چکی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ عددی صورت حال کے پیش نظر یہ بل ہرگز منظور نہیں ہو گا۔ پیپلز پارٹی رواں برس مئی کے آغاز میں ایک بار پھر مذکورہ بالا تین ڈویژنوں، بکھر اور میانوالی سمیت 13  اضلاع پر مشتمل نئے صوبے کی تشکیل کے لئے آئینی ترمیمی بل 2013  کی پوزیشن کے مطابق ایک اور بل سینیٹ میں جمع کروا چکی ہے۔



دو تہائی اکثریت کے لئے تحریک انصاف پیپلز پارٹی سے رجوع  کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے 50 ووٹ ملا کر بھی کم از کم 21 اور ووٹوں کے لئے کافی تگ و دو کی ضرورت ہے مگر دوسری طرف نیا صوبہ بننے سے تحریک ِانصاف کو پنجاب میں اپنی حکومت گرنے کا خدشہ بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کی جیتی ہوئی 50 میں سے 30 نشستیں جنوبی پنجاب سے ہی ہیں اور اس تقسیم سے ن لیگ باقی ماندہ پنجاب میں حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔ تاہم، آئین اس حوالے سے واضح نہیں کہ نئے صوبے کی تشکیل کے بعد وہی اسمبلی اپنا کام جاری رکھے گی یا نئے انتخابات ہوں گے۔ اس لئے ہردو پارٹیاں ترمیمی بلِ پر ووٹ دینے سے پہلے مکمل غور کریں گی اور گھڑیال کی ٹک ٹک ابھی جاری ہے۔

درج بالا پس منظر کے ساتھ  ساتھ اگر سرائیکی وسیب میں سرائیکی صوبے کے حوالے سے جاری بحثوں کا بھی ذکر کیا جائے جو سرائیکی شاعروں، ادیبوں اور دانش وروں میں جاری و ساری ہیں تو درج بالا تصویر زیادہ مکمل، جامع اور دلچسپ ہو جائے گی۔ سرائیکی دانشوروں اور قوم پرستوں میں مختصراً تین دھڑے اور نکتہ ہائے نظر مقبول عام ہیں۔ ایک دھڑ ے کا خیال ہے کہ  لفظ سرائیکی اور سرا ئیکی صوبہ کے نام اور اپنی مکمل جغرافیائی لسانی حدود کے بغیر صوبے کی تخلیق نہ صرف ادھوری بلکہ بے معنی، غیرموثر اور کمزور کوشش ہو گی بلکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ  سرائیکی لسانی اور ثقافتی شناخت کو بھی مندمل کر دے گی۔ ان کے خیال میں پنجاب میں موجود 13 اضلاع سمیت سرائیکی صوبے میں خیبر پختونخوا کے دو اضلاع ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان بھی شامل ہونے چاہئیں کیوں کہ یہ دونوں اضلاع بھی تاریخی، لسانی اور ثقافتی لحاظ سے ہمیشہ سرائیکی وسیب کا حصہ رہے ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان سے تعلق رکھنے والے دانشور اور سیاسی کارکن بھی جذباتی حد تک اس مطالبہ کی تائید کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا مختلف موقف رکھنے والے دانشوروں سے سوشل میڈیا پر شدید بحث و مباحثہ، گلہ شکوہ اور باہمی الزم تراشیاں جاری رہتی ہیں۔ اس لئے وہ پیپلز پارٹی سمیت اُن تمام سیاسی جماعتوں کے موقف کو ردّ کرتے ہیں جو انتظامی بنیادوں پر سرائیکی ریجن میں ایک ادھورا صوبہ بنانے کے وعدے یا کوششیں کر رہی ہیں۔ سادہ لفظوں میں وہ اکھنڈ سرائیکی صوبہ بنانے کے حق میں ہیں۔



ان سطور میں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کی عوامی نیشنل پارٹی اپنے منشور میں خیبر پختونخوا میں  سرا ئیکی شناخت اور ثقافتی حقوق کو تو تسلیم کرتی ہے لیکن ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان کے مجوزہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ میں ادغام کے سخت خلاف ہے۔ دوسری جانب بلوچ قوم پرست اور قومی پارٹیاں بشمول نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی ڈیرہ غاز‎‎ی خان اور راجن پور کے اضلاع  کو سرے سے سرائیکی بیلٹ کا حصہ ہی تسلیم نہیں کرتیں۔ ان کے نزدیک، ان ضلعوں میں رہنے والے لوگ چوں کہ نسلاً  بلوچ ہیں، اس لیے سرا ئیکی صوبہ بنانے کی بجائے یا سرائیکی صوبہ تخلیق کرنے سے پہلے درج بالا دونوں ضلعوں کو بلوچستان کا حصہ قرار دینا چاہئے۔ دوسری طرف عوامی، لسانی و ثقافتی صورت یہ ہے کہ ِان اضلاع کا شاید ہی کوئی باشندہ بلوچستان میں شمولیت پر تیار ہو اور کمال خوبی یہ ہے کہ سرائیکی دانشور، شاعر اور قوم پرست مہم کی ممتاز ترین شخصیات کا تعلق بھی ان اضلاع سے ہی ہے اور رہا ہے۔

سندھی قوم پرستوں کا موقف سُنے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی کیوں کہ قوم پرستی کی جدوجہد میں سندھ کے کردار سے کوئی  شخص انکار نہیں کر سکتا۔ مجموعی طور پر شاید کسی بھی سندھی قوم پرست پارٹی کو سرائیکی شناخت اور صوبے کی تشکیل پر اعتراض نہیں۔ اُن کو خدشہ صرف یہ ہے کہ جناح صوبے کے مطالبے کو کسی طور بھی تقویت نہیں ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے طمانیت کی بات یہ ہے کہ سرائیکی دانشوروں اور سیاست دانوں کا پہلے دن سے ہی ایک اَن کہا، اَن لکھا معاہدہ ہے کہ وہ شمالی سندھ میں موجود کسی بھی سرائیکی یا سرا ئیکی اکثریتی ضلعے پر اپنا دعوٰی نہیں کریں گے۔ ایسا نہ پہلے کبھی ہوا ہے اور نہ ہی سرئیکی قوم پرستوں میں اِس سے متعلق کوئی بحث ہونے کا امکان ہے۔

دوسرا دھڑا وہ ہے جسے جنوبی پنجاب نام پر شدید اعتراض ہے، وہ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان کی عدم شمولیت پر تو سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن سرائیکی صوبے کو جنوبی پنجاب کے نام کے ساتھ اور مجوزہ تین ڈویژنوں کے ساتھ ساتھ جھنگ، بھکر اور میانوالی جیسے خالصتاً سرائیکی اضلاع کے بغیر قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ اُن کے خیال میں اگر جدوجہد طویل ہوتی ہے تو ہو جائے مگر ادھورے بے نام سرائیکی صوبے کو ہرگز قبول نہیں کرنا چاہئے۔



 تیسرا دھڑا لسانی اور ثقافتی لحاظ سے تو سرائیکی شناخت کو بے پناہ اہمیت دیتا ہے لیکن سیاسی مشکلات اور ممکنات کو مدِنظر رکھتے ہوئے عملیت پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور پیپلز پارٹی کے جنوبی پنجاب صوبہ کے پروپوزل کی تائید کرتا ہے جو کہ پنجاب کے اندر موجود تقریباً 13 اضلاع پر مشتمل صوبہ بنانے کا وعدہ کرتی رہی ہے۔ بہاولپور صوبہ کے حق میں نہیں ہے اور یہ کہتی ہے کہ بہاولپور کبھی صوبہ نہیں رہا اور نہ ہی ایسا کوئی نوٹیفیکیشن پاکستانی دستاویزات میں موجود ہے۔

اِس دھڑے کے خیال میں پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے سرائیکی موقف اور شناخت کو تسلیم کیا اور  پیپلز پارٹی نے ہی اس مسئلے کو قومی اہمیت کا مسئلہ اور مطالبہ بنایا اور ہمیشہ واضح اور مضبوط موقف بھی اختیار کیا، اِس لئے 2018 کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی ایک بار پھر پیپلز پارٹی ہی ٹھوس کردار ادا کر سکتی ہے اور یہ  پیپلز پارٹی ہی تھی جس نےجنوری 2012 میں قومی اسمبلی میں نہ صرف سرائیکی بلکہ ہزارہ صوبہ کی تخلیق کے لئے بھی آئینی ترمیمی بل پیش کیا تھا مگر مسلم لیگ ن سمیت ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی نے اس بِل کی مخالفت کی تھی اور مطلوبہ آئینی ترمیمی بل منظور نہیں کروایا جا سکا تھا، تاہم نئے صوبے کی تخلیق کے حوالے سے سینیٹ کا منظور شدہ بل اب بھی آئینی اور قانونی اہمیت کا حامل ہے۔

 اُن کے خیال میں  پیپلز پارٹی کا موقف زیادہ جاندار اور قابلِ بھروسہ رہا ہے اور شر یک چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کئی  بار جنوبی پنجاب صوبہ کی تخلیق پر اپنی کمٹمنٹ دہرائی ہے اور یہ کہ مسلم لیگ (ن) کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیے بغیر جنوبی پنجاب صوبے کا بگل بجاتی رہی ہے۔

اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ تحریک انصاف سرائیکی صوبہ کی تخلیق میں کیا کردا ادا کرتی ہے۔ اس کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی سپورٹ سے سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبہ بنا ڈالے اور اسے یقین ہونا چاہیے کہ اس کے اِس اقدم سے پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ ہوگا اور کسی بھی پارٹی کے لئے اِس سے زیادہ خوش آئند بات کیا ہو سکتی ہے کہ ایک تاریخی اقدام ان کے نام سے وابستہ ہو۔

مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں