یہ عورت ہی ہے جو مرد کی عزت کی خاطر ہر ظلم سہہ جاتی ہے۔ آپ پھر بھی کہتے ہیں عورت کمزور ہے؟

یہ عورت ہی ہے جو مرد کی عزت کی خاطر ہر ظلم سہہ جاتی ہے۔ آپ پھر بھی کہتے ہیں عورت کمزور ہے؟
دین اسلام میں عورت کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی مذہب میں حاصل نہیں۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی وضاحت کی ہے۔ عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ عورت کو بے بس اور کمزور سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت بہت طاقتور ہے۔ عورت اگر بے بس ہے تو معاشرے کی کچھ قدریں ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھ کے وہ خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے اور کہیں عزت کے جنازوں کے خوف سے ہر ظلم کو برداشت کر جاتی ہے۔

معاشرہ ان سب باتوں کے باوجود عورت کو کمزور سمجھتا ہے۔ جو عورت مرد کا تھپڑ اور اس کا تشدد سہہ جاتی وہ عورت کمزور نہیں بلکہ مرد کی عزت کا جنازہ نہ نکلنے کی وجہ سے سب ظلم و ستم چپ چاپ سہہ کے درگزر کر کے اپنی زندگی انہیں درندوں کے ساتھ گزار جاتی ہے جو اس کو نوچ نوچ کے کھاتے ہیں۔



اگر عورت مرد کے راز نہ چھپائے تو مرد معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہے۔ یہ عورت ہی ہے جس کے راز فاش نہ کرنے پر آج مرد سر اٹھا کے بہت شان و شوکت سے معاشرے میں چل رہا ہے۔ عورت معاشرے کے ہر رویے کو برداشت کرتی ہے مگر کچھ تنگ نظر لوگ کہتے ہیں کہ عورت میں برداشت نہیں، حوصلہ نہیں۔ عورت میں برداشت اور حوصلہ نہیں تو اللہ نے عورت کو ماں کے رتبے پر کیوں فائز کیا؟



یہ سچ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر مرد ایک جیسی فطرت کا حامل نہیں اور نہ ہی ایک جیسی سوچ رکھتا ہے۔ کچھ مرد اپنے گھر کی عورتوں کو سر کا تاج بنا کے بٹھاتے ہیں، ان کی عزت اور احترام میں کسی صورت کمی نہیں لاتے، چاہے ماں ہو، بیٹی ہو، بہن ہو یا بیوی۔ ہر رشتے کو بخوبی نبھاتے ہیں اور ایسے مرد معاشرے میں عزت اور مقام بناتے ہیں۔



عورت بہت نازک ہوتی ہے۔ اگر سختی سے اس کو اپنے سانچے میں ڈھالنا چاہیں گے تو وہ ٹوٹ کے بکھر جائے گی مگر اس سانچے میں نہیں ڈھل سکے گی۔ اگر عورت کو نرمی، عزت اور پیار سے ڈھالا جائے تو وہ خوشی سے سانچے میں ڈھل جاتی ہے، اور پھر اپنا نفع نقصان تک نہیں دیکھتی۔

عورت کو نشانہ بنانے والے مرد خود کو مرد کہلواتے تو ہیں مگر وہ مرد ہوتا نہیں جو عورت پر ظلم روا رکھے۔ عوتوں کے تحفظ کے لئے قانون بنائے گئے مگر ان قوانین کے باوجود اپنے انصاف کے لئے عورت در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ جہاں بھی جاتی ہے، جہاں سے بھی گزرتی ہے، اسے حوس اور کاٹ کھانے والی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر ممکنہ کوشش کر کے اپنے دامن کو ایسے درندوں سے بچاتی ہے مگر یہ درندے اپنی فطرت اور گندی نظر سے باز نہیں آتے۔



اسلامی ملک ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں زیادتی کا نشانہ بنانے اور عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات بے شمار ہیں اور ان بے شمار واقعات میں عورت کی تذلیل سر فہرست ہے۔ عورت جہاں پیدا ہوتی ہے، پروان چڑھتی ہے، یہ تو وہ چھت ہوتی ہے جہاں اسے ہر درندے کے کھانے کے خوف سے پناہ ملتی ہے اور وہ خود کو سب سے زیادہ اسی چھت کے نیچے محفوظ سمجھتی ہے۔ مگر کچھ بدبخت عورتوں کو اس چھت کے نیچے بھی تحفظ حاصل نہیں تو کیا کوئی دوسری چھت یا جگہ عورت کے تحفظ کی ذمہ دار ہوگی؟

مصنفہ کا تعلق مسلم لیگ نواز سے ہے اور ایک لیڈی کونسلر بھی ہیں۔