جب سے کرونا وائرس کی وبا شروع ہوئی ہے پنجاب حکومت نہ صرف تنقید کی زد میں ہے بلکہ قرائن بتاتے ہیں کہ یہ اپنی نااہلی کو چھپانے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ کرونا سے کنفرم ہلاکتوں کو چھپانے کے الزامات سے لے کر انتقال کرنے والے مشتبہ مریضوں کا ریکارڈ مبینہ طور پر جان بوجھ کر مسخ کرنے اور اب ایسے قرنطینہ یا آئسولیشن سینٹرز میں موبائل انٹرنیٹ معطل کرنے کی رپورٹس تک جہاں موجود مریض بدترین حکومتی انتظامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر رہے تھے یا پھر صحافیوں کو مہیا کر رہے تھے، پنجاب حکومت کا مجرمانہ کردار سامنے آ رہا ہے۔
بی بی سی کے مطابق لاہور کے آئسولیشن سینٹرز میں زیر علاج کرونا کے مریضوں کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن آئسولیشن سنٹرز میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے، ان میں لاہور کا ایکسپو اور کالا شاہ کاکو میں بنائے گئے آئسولیشن سنٹر شامل ہیں۔
مریضوں نے بتایا کہ جب سے ایکسپو سنٹر کے ناقص انتظامات سے متعلق کچھ ویڈیوز لیک ہوئی ہیں تب سے یہاں خاصی سختی کر دی گئی ہے۔ اس لئے ہم کوئی بھی ویڈیو بناتے ہوئے احتیاط کرتے ہیں۔ یہاں نہ تو وائی فائی دستیاب ہے اور پہلے موبائل کا انٹرنیٹ چلتا تھا لیکن اب کبھی کبھی انٹرنیٹ کے سگنل آ تے ہیں لیکن وہ بھی برائے نام ہی ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں اس وقت ایسے بھی مریض موجود ہیں، جو پچھلے ایک ڈیرھ ماہ سے زیر علاج ہیں لیکن ان میں کسی قسم کی علامات نہیں ہیں۔ اب وہ انٹرنیٹ کے ٹائم پاس سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
موبائل انٹرنیٹ کی یہ بندش منظم ہے اور اسے کپمنیوں کی جانب سے حکومتی احکامات پر کیا گیا ہے۔ اور اس بندش سے قرنطینہ سینٹرز سے ملحقہ آبادی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بی بی سی نے لکھا ہے کہ اس علاقے کے دورے اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں موبائل پر انٹرنیٹ کے سگنلز بھی چلے جاتے ہیں جب کہ کال اور میسج کرنے لئے موبائل سروس بحال رہتی ہے۔
بی بی سی کے مطابق مزید جانچ پڑتال پر آس پاس کے علاقوں میں مقیم چند رہائشیوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ پچھلے ایک ہفتے سے اس علاقے میں موبائل انٹرنیٹ کی سہولت معطل ہے۔ ایکسپو سنٹر کے عقب میں رہائش پذیر ایک شخص نے بتایا کہ وہ اور ان کے گھر والے موبائل انٹرنیٹ کا استعمال کرنے سے قاصر ہیں جس کے باعث انہیں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ وہ اپنے گھر میں موجود وائی فائی کو استعمال کرتے ہوئے ہی آن لائن چیزوں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں‘۔ بی بی سی کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موبائل نیٹ ورک کے کسٹمر کیئر پر رابطہ کرنے پر انہیں جواب دیا گیا کہ ہماری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں، جوہر ٹاؤن کے اس علاقے میں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کو بلاک کیا گیا ہے۔
دوسری طرف وزیر صحت یاسمین راشد اس متعلق کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکیں۔
یاد رہے کہ نیا دور نے پہلے بھی ڈاکٹرز کے ان دعؤوں پر تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی کہ پنجاب حکومت کی جانب سے وبا کے ابتدائی دنوں میں کرونا سے ہونے والی 20 سے زائد اموات کو جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا۔ یہ اموات اس لئے چھپائی گئیں تاکہ کرونا کے حوالے سے لاک ڈاؤن مخالف بیانیہ تشکیل دینے کے لئے وفاق کو جو مدد درکار تھی وہ فراہم ہو سکے۔ میو اسپتال کے سینیئر ڈاکٹر جو اس معاملے سے آگاہ ہیں انہوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہ اموات پنجاب میں کرونا وائرس پہنچنے کے بعد 20 مارچ سے اپریل کے اوائل تک ہوئیں۔ یہ اموات پنجاب کے مختلف اسپتالوں میں ہوئیں تاہم ان اموات کی بڑی تعداد میو ہسپتال میں واقع ہوئی۔ ڈیوٹی ڈاکٹرز نے ان مریضوں کے ٹیسٹ بھیجنے کی کوشش کی تو اس عمل میں مشکلات ڈال کر ان کو روکا گیا اور حکام کی جانب سے ہدایت دی گئی کہ انہیں ان مریضوں میں شمار کر کے مردہ قرار دیا جائے جن کو شوگر، کینسر یا ہیپاٹئٹس جیسا پہلے سے کوئی عارضہ لاحق تھا۔