ایک نامور امریکی سائنسدان نے کہا ہے کہ حکومتوں کو عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لگائی گئی پابندیوں میں نرمی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس بیماری کے علاج کے لیے جلد بننے والی کامیاب ویکسین پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
کینسر، ایچ آئی وی/ایڈز اور انسانی جینوم کے منصوبوں پر ابتدائی تحقیق کرنے والے ویلیئم ہیسٹ لائن نے کہا کہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ انفیکشن کا احتیاط سے سراغ لگایا جائے اور جب یہ پھیلنا شروع ہو تو آئیسولیشن کے سخت اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ مؤثر علاج یا ویکسین کے بغیر بھی وائرس کو انفیکشن کی شناخت، متاثرہ افراد کو تلاش کر نے کے بعد انہیں آئیسولیٹ کر کے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ ماسکس پہنیں، ہاتھ دھوئیں، جگہ صاف کریں اور فاصلہ برقرار رکھیں۔ ویلیئم ہیسٹ کا کہنا تھا کہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک نے اس حکمت عملی کا کامیابی سے استعمال کیا ہے جبکہ امریکہ اور دیگر ممالک نے وائرس کے خطرے کا شکار تمام افراد کو جبری طور پر تنہا کرنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے۔
سائنسدان کا کہنا تھا کہ چین، جنوبی کوریا اور تائیوان نے انفیکشنز کو قابو کرنے کے لیے بہترین اقدامات کیے جبکہ امریکہ، روس اور برازیل نے سب سے بری کارکردگی دکھائی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تجرباتی کووِڈ 19 کی ویکسین کے جانوروں پر تجربے سے جسم کے دیگر اعضا مثلاً پھیپھڑوں میں وائرس کا دباؤ کم کرنے میں مدد ملی تاہم وائرس موجود رہا۔
علاج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کو کووِڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کی جانب سے اینٹی باڈیز سے بھرا عطیہ کردہ پلازما لگایا جارہا ہے اور دوا ساز اس سیرم کے ریفائینڈ اور سیر شدہ محلول تیار کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ ہائپر امیون گلوبلن کے نام سے معروف پروڈکٹس سے پہلا حقیقی علاج ہونے جارہا ہے۔
واضح رہے کہ عام طور پر ایک ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگتے ہیں مگر کرونا وائرس کی وبا کے پھیلنے کی رفتار کے باعث ویکسین کی تیاری بھی بہت تیزی سے ہورہی ہے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں اس عالمی وبا کا شکار بن کر 3 لاکھ 28 ہزار 368 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد 50 لاکھ 11 ہزار 467 ہوگئی ہے تاہم اس سے صحتیاب ہونے والوں کہ تعداد 19 لاکھ 8 ہزار 581 ہوگئی ہے۔