یہ واقعہ انڈین ریاست آسام کے گولپارہ ضلع کے ہرکا چنگی مڈل سکول میں پیش آیا جہاں کی ہیڈ مسٹریس حلیمہ نیسا ایک سکول فیسٹیول میں مبینہ طور پر بیف کا سالن ساتھ لائیں اور یہ اس وقت سامنے آیا جب محکمہ تعلیم سرکاری سکول کے کام اور سہولیات کا جائزہ لینے یہاں پہنچا۔
گولپارہ کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مرینل ڈیکا نے اس معاملے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ واقعہ رواں ماہ 14 مئی کو پیش آیا، جب ہیڈ مسٹریس اپنے گھر سے بیف کا سالن سکول لائیں تاکہ وہ اسے اساتذہ اور گاؤں والوں سمیت فیسٹیول کے مہمانوں کو پیش کر سکیں۔
پولیس آفیسر نے کہا کہ کئی لوگوں نے اس پر اعتراضات اٹھانے کے بعد ان کی کھانے کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔ اس کے فوراً بعد یہ واقعہ وائرل ہو گیا اور 17 مئی کو ایک مقامی شہری نے ٹیچر کے خلاف پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ تاہم مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ سکول مینجمنٹ کمیٹی کی شکایت کی بنیاد پر درج کیا گیا تھا۔
انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق حلیمہ نیسا پر مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کو فروغ دینے اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے متعلق ملکی قانون کی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ خاتون ٹیچر کو بدھ کو عدالت میں پیش کیا گیا اور تب سے وہ عدالتی تحویل میں ہیں۔
آسام حکومت کے ڈسٹرکٹ ایلیمنٹری ایجوکیشن کے دفتر نے بھی 56 سالہ سکول ٹیچر کو فوری طور پر معطل کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس معاملے کی اعلیٰ سطح انکوائری بھی شروع کر دی گئی ہے۔
انڈیا کی ہندو اکثریت کے لوگ گائے کو مقدس سمجھتے ہیں اور گائے کو ذبح کرنا یا گائے کا گوشت کھانا ملک کے بیشتر حصوں میں غیر قانونی یا ممنوع ہے۔ تاہم آسام میں، جہاں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، گائے کے گوشت کے استعمال پر پابندی نہیں ہے۔