تحریر: (میاں وسیم اکرم ) ہم جناب ویسے تو ہیں بھی اسلامی اور ہمارے ملک کا نظام بھی اسلامی ہے تاہم افسوسناک سانحہ جو قابلِ تلافی ہے وہ یہ ہے کہ ہم انسانیت کے ساتھ ساتھ ایک عورت کا وقار بھی بھول گئے ہیں۔ یہاں پر دو تین باتیں کروں گا ہوسکتا ہے کہ میری بات کسی کو بری بھی لگے۔
عورت کون ہے کیا ہے؟ ایک عورت کے بہت سے روپ ہوتے ہیں، سب سے اعلیٰ ماں ہوتی ہے جو اولاد کو نو ماہ دس دن اپنے پیٹ میں رکھ کر اور انتہائی کرب برداشت کر کے پیدا کرتی ہے۔ عورت ایک بہن بھی ہوتی ہے جس کی عزت کا پہرہ بھائی دیتا ہے، عورت بیوی بھی ہوتی ہے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر آپ کے پاس آتی ہی جسکی حفاظت اس کا خاوند کرتا ہے۔
بیٹی بھی ایک عورت ہے۔جو ماں باپ کی عزت ہوتی ہے اور آنکھوں کا تارا ہوتی ہے تاہم عزت نفس سب کی ہوتی ہے، اس میں کوئی امیر یا غریب کا فرق نہیں ہوتا، عزت نفس سب کو عزیز ہے۔
افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ عزت نفس کو مجروح کر کے ہم بہت خوشی محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی عظیم کارنامہ سر انجام دے دیا ہے۔ کسی کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ چپ رہے اسکا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اسے تکلیف نہیں پہنچی اسکا مطلب ہے کہ وہ اس مقام پر نہیں ہے کہ آپ سے کچھ کہہ سکے۔
معاشرے میں ہمارا کردار انتہائی افسوسناک ہے۔ سنتے آتا تھا کہ ماں سب کی سانجھی ہوتی ہے لیکن آج ماں بھی اپنی اپنی ہے۔ باقی ایک عورت بہن بھی ہے۔ اسکی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے اور دوسروں کی بہنوں کو حوس زدہ آنکھوں سے گھورتے رہنا ہے، بیوی اپنی ہے حفاظت بھی اسکی کرنی ہے، باقی بس ایک عورت ہے کہ واہ واہ کیا کہوں۔
بیٹی جو ایک ماں باپ کی عزت ہے اور ہم اس عزت کو روندنے کیلئے بے تاب بیٹھے ہیں۔.ہمارا آج معاشرے میں جو کردار ہے وہ یہ ہی رہ گیا ہے کہ عورت ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اور ہم اس ٹکڑے کو کچا چبا جانا چاہتے ہیں۔
ماضی قریب میں رابی پیرزادہ کی نجی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں، جو جنگل میں لگنے والی آگ سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل گئیں اور ہم بحیثیت ایک مرد ہلکان ہو گئے اگر ہم بحیثیت باپ بھائی خاوند سوچتے تو شاید اتنے ہلکان نہ ہوتے کہ وہ بھی ایک عورت ہے اور کسی بھی روپ میں ہوسکتی ہے ایک بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے روپ میں۔