ایک نہیں دو پاکستان قصور کس کا؟

ایک نہیں دو پاکستان قصور کس کا؟
نومبر کے مہینے تیسرا ہفتہ انتہائی تیز اور خبروں سے بھرپور شروع ہوا۔ ہفتے کے آغاز کے پہلے تین دن ہر لمحہ کوئی نہ کوئی نئی خبر سامنے آئی اور بیان پر بیان، اور پھر ان بیانات کے اوپر بحث پر بحث؛ ایسی بحث جس کے کئی کئی زاویے اور اس پر ہر زاویہ سے نہ ختم ہونے والی بحث جاری اور ساری ہے۔ سب سے پہلے نون لیگ کے سربراہ اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی بیماری اور پھر ان کی بیرون ملک روانگی کے لئے عدلیہ کے فیصلے اور اس پر نہ ختم ہونے والی بحث کو ہی لے لیتے ہیں۔



نواز شریف کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے خود کہا کہ وہ بیمار ہیں اور وہ انہیں انسانی ہمدردی کی وجہ سے بیرون ملک جانے کی اجازت دیں گے ۔ اجازت دینے کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جو دو گھنٹے تک صرف اور صرف نواز شریف کو بیرون ملک اجازت دینے کے لئے طریقے ڈھونڈتا رہا۔ کیوں کہ یہاں ایک نہیں دو پکستان ہیں، غریبوں کے لئے ایک آدھ منٹ ہی کابینہ کا اجلاس میں مختص ہوتا ہے اور امیر کے لئے دو گھنٹے کا اجلاس۔ بالآخر وزیر قانون فروغ وسیم کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی نے قانونی طریقہ ڈھونڈنے کے لئے اوپر تلے کارروائیاں کیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں چار ہفتوں کے لئے بیرون ملک علاج کے لئے اجازت دی جا سکتی ہے۔

تاہم، نواز شریف یا ان کے بھائی شہباز شریف کو انڈمنٹی بانڈ جمع کرانا ہوگا جس کی مالیت سات ارب کے لگ بھگ بنتی تھی۔ اس تجویز کو شریف خاندان نے مسترد کر دیا اور عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے نزدیک حکومت نے، خاص کر اس کے اس گروپ نے جو لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے کنٹرول میں نہیں جس کی وجہ سے وہ وزیر اعظم کی پالیسی لائن کو مسترد کر کے میڈیا پر بھانت بھانت کی بولیاں بولتے نظر آتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم نے اعلان کردیا کہ وہ نواز شریف کو انسانی ہمدردی کی بنا پر علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینا چاہتے ہیں تو پھر ایک روپے کے بانڈ کی بھی شرط کیوں؟ پھر اگر کابینہ نے چار ہفتوں کے لئے اجازت دینے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو حکومت خود عدالت سے رجوع کر کے اورتمام تر قانونی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھ کر عدالت سے ہی اجازت لے سکتی تھی، جس کے تحت خود حکومت اور تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ پہنچتا اور اس پر یہ الزام بھی نہ لگتا کہ وہ نیب کو اور نیب کیسز کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور انتقام لینے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ بہرحال حکومت نے سیاسی فائیدہ حاصل کرنے کا نایاب اور کم خرچ موقع کھو ڈالا۔



شہباز شریف جب اپنے بھائی کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ لے کر گئے تو حکومت نے وہاں بھی روڑے اٹکائے اور درخواست کو قابل سماعت قرار نہ دینے کی استدعا کی کیوں کہ نواز شریف کو سزا نیب اسلام آباد نے دی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے آٹھ ہفتوں کے لئے چوہدری شوگر ملز میں ان کی سزا معطل کی تاکہ نواز شرف اپنی گرتی ہوئی صحت کا علاج کرا سکیں۔ یہ بھی سوال اٹھا کہ عدالت نے ہفتے کے روز چھٹی والے دن سماعت رکھی کیوں کہ ایک امیر اور بااثر شخص کو چھوٹ دینا تھی۔ عرضیکہ اعلیٰ عدالتیں اکثر چھٹی والے دن عام آدمی اور طویل عرصے سے زیر التوا کیسز کو نمٹانے کے لئے ہفتے کے دن یا بروز جمعہ نماز کے وقت بحث کو مکمل کرنے کا وقت رکھتی ہیں اور اس دوران کوئی دوسرا کیس نہیں سنا جاتا۔ سو یہ ایک معمول کا معاملہ تھا۔ دوسرا اعتراض بھی مسترد ہوا کہ کیس صرف اسلام آباد ہائی کورٹ نہیں سن سکتی کیوں کہ درخواست گزار لاہور کا رہائشی ہے۔

اب آئیے عدالت کے فیصلے پر تو فیصلے میں وہی لکھا ہے جو حکومتی فیصلہ تھا کہ نواز شریف کو چار ہفتوں کے لئے انڈرٹیکنگ دے کر علاج کی اجازت دی جا رہی ہے اور وہ جوں ہی صحتیاب ہوں گے واپس آ جائیں گے۔ ہاں، البتہ اس میں توسیع کی گنجائش ہے۔ اگر وہ واپس نہ آئے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی اور ان کی یہاں جائیدادیں بھی ضبط ہو سکتی ہیں۔

یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ انڈر ٹیکنگ اور شریف خاندان کی سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ 2000 میں بھی نواز شریف اور ان کا پورا خاندان انڈرٹیکنگ دے کر سعودی عرب گیا اور پھر وہاں سے لندن 2005 میں انڈرٹیکنگ دے کر گیا کہ ان کا بیٹا حسن بہت بیمار ہے جس کا علاج لندن میں ہو رہا ہے اور خاندان کو ان کے ساتھ رہنا ہے۔ اس ڈیل کو جنرل مشرف جو اس وقت صدر اور آرمی چیف تھے، کے ایک بہت قریبی دوست نے حتمی شکل دلائی اور یوں شریف خاندان سعودی عرب سے لندن منتقل ہوا اور پھر کبھی وہاں سے واپس سعودی عرب نہیں گیا۔ بلکہ لندن میں ہی سیاست کی اور بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے۔



2007 میں جب بینظیر بھٹو شہید کی پاکستان واپسی سے قبل نواز شریف بھی 10 ستمبر کو اسلام آباد آئے لیکن انہیں اسلام آباد کی ہوائی اڈے سے ہی سعودی عرب واپس بھجوا دیا گیا تھا کیوں کہ انڈرٹیکنگ کے مطابق انہیں دس سال تک وہاں رہنا تھا۔ تاہم، 18 اکتوبر کو بینظیر بھٹو کی واپسی کے بعد ان کے لئے کسی طور راہیں کھلنا شروع ہو گئیں اور کسی خفیہ بات چیت کے ذریعے 25 نومبر 2007 کو نواز شریف پاکستان واپس آ گئے اور 2008 کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔

اب دیکھنا ہوگا کہ اس بار میاں صاحب کیا کرتے ہیں۔ کیا وہ اپنے سمدھی اسحاق ڈار کی طرح علاج مکمل نہ ہونے پر بار بار توسیع لیتے ہیں یا پھر اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لئے چار ہفتوں میں ہی واپس آجاتے ہیں۔

میاں صاحب کی لندن روانگی سے پہلے ہی جناب وزیر اعظم صاحب نے حویلیاں مانسہرہ موٹروے کے افتتاح کے موقع پر مولانا فضل الرحمن سے لے کر شہباز شریف اور پھر عدلیہ پر بھی چڑھائی کر ڈالی۔ نہ جانے کون لوگ ہیں جو وزیر اعظم کو میڈیا سے اور پھر پارلیمنٹ اور ان قوتوں کے ساتھ الجھا رہے ہیں جو سیاست پر نظر رکھ کر سیاسی نہ ہو کر بھی سیاست میں اپنا حصہ ڈالتی رہتی ہیں۔ اس صورتحال سے لگتا ہے کہ حکومت کے اندر کچھ قوتیں اور خود وزیر اعظم کا اپنا مزاج حکومت کو اپنا ایجنڈا مکمل کرنے سے روک رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور اگلے چیف جسٹس گلزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بااثر اور امیر لوگ عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے کر کے مقدمات سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا باعمل اور سب کے لئے بنا تفریق ایک قانون کس نے بنانا ہے؟ کیا قانون سازی عدلیہ کا کام ہے؟ کیا وزیر اعظم کو نہیں پتہ کہ قانون سازی پارلیمان کرتی ہے، جس کے ساتھ وہ روز اوّل سے ہی ٹکر لیے ہوئے ہیں اور وہاں وہ جانا اور اجلاس میں شرکت کرنا پسند نہیں کرتے۔ کیا انہیں نہیں پتہ کہ مجرم نیب کے بنائے مقدمات میں کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر چھوٹ رہے ہیں؟ کیا وزیر اعظم صاحب آپ کو عدلیہ کے ان فیصلوں سے فائدہ نہیں پہنچا اور آپ کا بنی گالہ کا گھر ہو یا پھر شاہراہ دستور پر قیمتی فلیٹ، عدالتی فیصلے آپ کے حق میں نہیں آئے؟ اور جہانگیر ترین جنہیں عدلیہ نااہل قرار دے چکی ہے وہ آپ کی کابینہ کی اجلاسوں میں موجود نہیں ہوتے۔ آپ کے وزرا پر نوکروں کے نام پر جائیدادیں خریدنے کے الزامات ہیں تو آپ نے ان کو وزارتوں سے الگ کر دیا؟



رانا ثنااللہ کو کیا عدالتیں فائدہ پہنچا رہی ہیں جو وہ آج تک سزا نہ پا سکے اور ان کا کیس صرف اس وجہ سے نہیں چل رہا کیوں کہ پراسیکیوشن ان کے خلاف اب تک کیس ثابت ہی نہیں کر سکی۔ یہ بھی ذمہ داری کیا عدلیہ کی ہے کہ وہ مجرم کو خود ثبوت فراہم کرکے سزا دے؟ کیا آپ کی کابینہ نے ترقیاتی بجٹ اور سوشل سیکٹر سرمایہ کاری کم نہیں کر دی کیوں کہ اس سے غریب کی حالت بدلتی ہے اور کیا آپ کی کابینہ میں وہ کاروباری نہیں موجود جو قیام پاکستان سے اب تک اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے حکومتوں کا حصہ رہے۔

تو حضور آپ نے درست کہا کہ یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں کیوں کہ آپ خود انہیں دو پاکستان کے اس حصے کے سوار ہیں جو اشرافیہ کہلاتا ہے۔ جو دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ آج آپ اس کے قصور وار ہیں کیوں کہ اقتدار کی کرسی آپ کے نیچے ہے۔ نوجوانوں سے آپ نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا۔ اپ نے غریبوں کے لئے پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے تھے جسے میں سے شاید اپ نے نہ سو نوکریاں دیں نہ سو گھر بنا سکے۔

ہاں غریب آج بھی سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے اور یہ بات درست ہے کہ امیر چاہے وہ نواز شریف ہو یا پرویز مشرف عدالتی پابندیوں سے آزاد بیرون ملک علاج کرانے چلا جاتا ہے۔ غریب وکیل کی فیس نہ بھر پانے کی وجہ سے سالہا سال جیل میں ہی سڑتا ہے، امیر اور بااثر کے لئے پورا نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ ہسپتال ہوں یا تھانے یا پھر عدالتیں، وہاں غریب پستا ہوا نظر آئے گا۔

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔