مسلم لیگ ن کے قائد میاں کو نیا پاسپورٹ جاری کر دیا گیا ہے، ان کی اب کسی بھی وقت پاکستان روانگی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف کو یہ نیا پاسپورٹ رواں ماہ 23 اپریل کو جاری کیا گیا تھا۔ اس پاسپورٹ کی معیاد 10 سال کی گئی ہے۔ پاسپورٹ ملنے کے بعد نواز شریف اب کسی بھی وقت پاکستان واپسی کیلئے روانہ ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں وفاقی حکومت نے نواز شریف کے پاسپورٹ کی تجدید کی ہدایت جاری کی تھیں۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے لیگی قائد کا سفارتی پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ نواز شریف کے سفارتی پاسپورٹ جاری کرنے کے حوالے سے لندن میں پاکستانی مشن کو بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
نواز شریف اور اسحاق ڈار کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہو چکی تھی۔ اسحاق ڈار کا پاسپورٹ ساڑھے تین سال قبل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے منسوخ کرا دیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پاسپورٹ کے اجرا کے بعد ان کی وطن واپسی ہوگی اور وہ سعودی عرب میں عمرہ ادا کرکے واپس آئیں گے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ کے اجرا اور وطن واپسی پر ان کی گرفتاری سے متعلق درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کر دی تھی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست گزار سے استفسار کیا تھا کہ بتائیں وفاقی حکومت نے کب آرڈر کیا جس سے آپ متاثر ہیں؟ عدالت ہوا میں تو کوئی آرڈر نہیں کرے گی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ پورے میڈیا میں اس کے چرچے ہیں، ہم نے کوشش کی کہ وہ آرڈر ملے مگر نہیں مل سکا۔ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ اشتہاری کو سرینڈر کرنا ضروری ہے، کوئی اشتہاری ہے تو اس کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اشتہاری کو پاسپورٹ جاری ہوا تو اس عدالت کی عزت کا سوال ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کی عزت عدالتی فیصلے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کو ڈپلو میٹک پاسپورٹ کے اجراء روکنے اور انہیں وطن واپس پر گرفتار کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی رھی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق درخواست گزار ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری ہونے کا حکومتی آرڈرپیش نہ کر سکے، عدالتیں محض پریس رپورٹس پرکارروائی نہیں کیا کرتیں، ایک اشتہاری سے قانون کے مطابق ہی نمٹا جائےگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ حکومت اصولوں کے خلاف جا کر کچھ کرے گی، ایسا شک کرنے کی وجہ موجود نہیں ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار وکیل پر 5000 روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے نواز شریف پر لندن میں بیٹھ کر ساری سازش رچانے کا الزام لگا دیا
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں عمران خان نے حکومت گرانے میں نواز شریف کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں واضح ہو گیا ہے کہ مراسلہ حقیقی تھا۔ سپریم کورٹ اس کی اوپن سماعت کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب جنوری سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا مجھے بھی خبریں آ رہی تھیں۔ سفارتخانوں نے ان لوگوں کو پہلا بلایا جو لوٹے تھے۔ سپریم کورٹ کو اس معاملے کی تحقیقات کرانی چاہیے تھی۔
عمران خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو یہ کام سپیکر کے استعفے کے وقت کرنا چاہیے تھا۔ ہم اب سپریم کورٹ سے سارے معاملے پر کھلی سماعت مانگتے ہیں۔ سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک میر جعفر اور میر صادق ملوث نہ ہوں۔ لندن میں بیٹھ کر نواز شریف نے سازش کی اور چھوٹا بھائی پاکستان میں اس کا حصہ تھا۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل نے تسلیم کر لیا جو ہم نے کہا وہ درست تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد ہمارے اتحادی اور پارٹی ارکان ہمارے خلاف ہوگئے۔ جیسے ہی ہمارے سفیر سے امریکی آفیشل کی میٹنگ ہوئی اگلے ہی دن عدم اعتماد آگئی۔ سازش کرنے والوں کو پتہ تھا کہ عمران خان کے بعد کون آئے گا۔ ملک کے وزیراعظم کے خلاف سازش کی گئی۔
انہوں نے کہا تھا کہ کہا گیا اگر عمران خان کو ہٹا دیا گیا تو پاکستان کو معاف کر دیں گے۔ کہا گیا عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے نہیں ہٹایا گیا تو پاکستان کیلئے مشکلات ہوں گی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج پھر کہتا ہوں کہ مراسلے سے متعلق جو بھی کہا تھا وہ سچ ہے۔ جب مراسلے سے متعلق بتایا تو کہا گیا یہ سب جھوٹ ہے۔ ہمیں جنوری سے پتہ چلا کہ کیا سازش ہونے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ایکشن نہیں ہوا تو پیسے لینے والے بچ جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ چاہتے ہیں الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ ووٹ بیچنے والوں کیخلاف سماعت کرے۔