جمال خاشقجی کا لرزہ خیز قتل: دنیا کو چند اہم فیصلے لینا ہوں گے

جمال خاشقجی کا لرزہ خیز قتل: دنیا کو چند اہم فیصلے لینا ہوں گے
جمال خاشقجی کے لرزہ خیز قتل نے پوری دینا کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ جمال خاشقجی ایک سعودی نژاد صحافی تھے جو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلطان اور ان کی آمرانہ حکومتی پالیسیوں کے ناقد تھے۔ اس تنقید کی وجہ سے جمال خاشقجی کو سعودی عرب چھوڑنا پڑا تاکہ ان کی جان محفوظ رہ سکے۔ 2 اکتوبر کے روز جمال خاشقجی اپنے پاسپورٹ کے دستاویزی کام کے سلسلے میں ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے میں گئے۔ شام تک جب ان کی وہاں سے واپسی نہ ہوئی اور نہ ہی ان سے رابطہ ممکن ہوا تو ان کی منگیتر نے سوشل میڈیا پر ان کی گمشدگی کے خدشے کا اظہار کیا۔ اگلے ہی روز بین الاقوامی میڈیا میں اس مدعے کو لے کر شور مچنا شروع ہوا اور چند روز میں ہی جمال خاشقجی کی پراسرار گمشدگی بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ کا محور بن گئی۔

سعودی حکومت کا جھوٹ بیچ چوراہے بے نقاب

اس بات کا شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ سعودی ولی عہد محد بن سلمان نے کہیں خاشقجی کو اغوا نہ کر لیا ہو۔ لیکن سعودی حکومت مسلسل اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی۔ چونکہ یہ واقع ترکی میں پیش آیا تھا اس لئے ترک تفتیشی ایجنسیاں فوری طور پر حرکت میں آئیں اور پھر بالآخر ان ایجنسیوں نے تحقیقات میں پتہ لگایا کہ جمال خاشقجی کو سعودی سفاتخانے کے اندر سعودی "ہٹ اسکواڈ" کے ارکان نے قتل کرنے کے بعد ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور ایک بیگ میں ان ٹکڑوں کو ڈال کر کسی دور افتادہ مقام پر پھینک آئے۔

https://www.youtube.com/watch?v=8vqLh9MP4_g

سعودی حکومت کی تمام تدبیریں الٹی پڑ گئیں

سعودی حکومت کا خیال تھا کہ یہ معاملہ چند دنوں میڈیا میں زیر بحث رہنے کے بعد دم توڑ جائے گا لیکن اس کے برعکس جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے نے پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔ یورپین ممالک سے لے کر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہان نے سعودی بادشاہت کے نظام اور بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان، جو کہ سعودی عرب کے ڈی فیکٹو بادشاہ ہیں، کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی سعودی عرب میں کسی بھی قسم کی سرگرمی سے انکار کر دیا۔ ڈیو ان ڈیزرٹ کے نام سے منعقد ہونے والی کانفرنس جس میں محمد بن سلمان کا معاشی وژن دنیا کو دکھلانا مقصود تھا اور اس بنا پر بین الاقوامی سرمایہ کاری کا حصول ممکن بنایا جانا تھا، اس کانفرنس میں شرکت سے تمام بڑی عالمی طاقتوں، کمپنیوں اور مالیاتی اداروں نے شرکت سے انکار کر دیا۔ چونکہ معاملہ بیحد آگے نکل گیا تھا، اس لئے سعودی عرب کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جمال خاشقجی کا قتل ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے میں ہی ہوا اور اس میں ملوث افراد جو کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھے جا سکتے ہیں کا تعلق سعودی خفیہ ایجنسی کے ساتھ ہی تھا۔

کوشش یہی کی جائے گی کہ چند بلی کے بکرے دے کر شہزادے کو بچا لیا جائے

دنیا کو یہ بتایا گیا کہ جمال خاشقجی کو سعودی خفیہ ایجنسی نے محمد بن سلمان کو بتائے بغیر قتل کیا۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے سعودی خفیہ ایجنسی کے نائب سربراہ کوعہدے سے سبکدوش کر دیا گیا جبکہ اس ضمن میں شاید آنے والے دنوں میں مزید نچلی سطح کے افسران کی قربانی دے کر محمد بن سلمان کو بے گناہ قرار دیا جائے گا۔ حالانکہ سعودی بادشاہوں کے طرز حکمرانی کو جاننے والا کوئی بھی عام فہم شخص اس حقیقت کو جانتا ہے کہ سعودی اینٹیلینجنس ایجنسیاں محمد بن سلمان کی اجازت کے بنا اس قسم کا کام ہرگز نہیں کر سکتیں۔

مغرب میں سعودی عرب کو شدید تنقید کا سامنا لیکن ٹرمپ بہادر آج بھی پشت پر

یہی وجہ ہے کہ جرمن چانسلر آنگیلا مارکل نے سعودی عرب کے مؤقف اور اس ضمن میں نمائشی اقدامات کو مسترد کر دیا ہے۔ محمد بن سلمان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خاموش حمایت حاصل ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد محمد بن سلمان کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لئے امریکہ اس وقت سعودی حکومت کو کسی بھی طرح فیس سیونگ دینا چاہتا ہے۔ اس طرح کا اقدام اگر کسی اور ملک کی حکومت نے اٹھایا ہوتا تو ابھی تک امریکہ اس ملک پر معاشی پابندیاں عائد کر چکا ہوتا۔ لیکن سعودی عرب نہ صرف امریکہ سے اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں صف اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے بلکہ بین الاقوامی منڈی میں تیل ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لئے امریکہ کے ساتھ ساتھ کئی یورپی ممالک بھی اس معاملے میں پس و ہیش سے کام لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ڈانلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد کو غیر ملکی میڈیا میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ یہ کارٹون جاپان ٹائمز سے لیا گیا ہے۔


محمد بن سلمان کی شخصیت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں

دوسری جانب اس بیہمانہ قتل نے محمد بن سلمان اور سعودی باشاہی نظام کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے آپ کو ایک ریفارمر کے طور پر پیش کیا تھا اور سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے کر اور سنیما گھروں کو فلموں کی نمائش کی اجازت دے کر دنیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ روایتی سعودی بادشاہوں کے برعکس وہ ایک لبرل اور معتدل مزاج شخصیت ہیں۔ لیکن پھر جس طرح پہلے انہوں نے اپنے ہی شاہی خاندان کے ان افراد کو احتساب کے نام پر قید کیا جو ان سے اختلاف رکھتے تھے اور پھر جس طرح جمال خاشقجی کو قتل کروایا اس کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان دراصل ایک آمرانہ سوچ کے مالک ہیں اور اپنے اوپر ہونے والی تنقید یا اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جمال خاشقجی کے اس معاملے کے بعد خود سعودی شاہی خاندان میں محمد بن سلمان کو لے کر تحفظات پائے جاتے ہیں۔



سعودی حکومت کا مسلم دنیا پر تسلط کا خواب بہت پرانا ہے

محمد بن سلمان کی یمن میں فوج کشی سعودی عرب کو مہنگی پڑ رہی ہے اور محمد بن سلمان کی مسلم دنیا میں ترکی اور ایران کا اثرو رسوخ ختم کرنے کی کاوشوں اور عزائم سے بھی سب بخوبی واقف ہیں۔ سعودی بادشاہ ہمیشہ سے ہی مسلم دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے کبھی پراکسی جنگوں کا سہارا لیتے رہے ہیں اور کبھی مسلم ممالک کی حکومتوں کے تختے امریکہ کہ مدد سے مل کر الٹتے رہے ہیں۔ جب مصر نے اسلام کی دانشوارانہ تشریح کرتے ہوئے اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی تو سعودی بادشاہوں نے وہاں کئی حکومتوں کے تخت الٹ کر اسے ایک طرح سےخانہ جنگی کا شکار بنا دیا۔ لیبیا سے لے کر یمن تک کے حالات میں سعودی بادشاہوں کا کلیدی کردار ہے۔

پاکستان میں سعودی حکومت کی حالیہ مداخلت

پاکستان میں بھی اکثر باخبر حلقوں کا ماننا ہے کہ نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے میں سعودی عرب کا کلیدی کردار تھا کیونکہ نواز شریف خارجی محاذ پر بہتری اور تبدیلی لا کر پاکستان کو امریکہ اور سعودی عرب کے شکنجے سے نکالنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری امریکہ سے زیادہ سعودی عرب کو کھٹکٹی تھی کیونکہ اگر پاکستان چین اور روس سے قریب ہو کر اقتصادی طور پر ترقی کی جانب بڑھنے کا آغاز کرے گا تو سعودی شاہی خاندان پاکستان کی فوج کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال نہیں کر پائے گا۔ دوسری جانب سعودی عرب اور ایران مسلم دنیا میں جہاں شدت پسندی اور فرقہ وارانہ جنگیں پھیلانے کا باعث ہیں، وہیں یہ دونوں ممالک اسلام کو دور جدید کے تقاقضوں سے ہم آہنگ نہ  ہونے دینے اور مسلم معاشروں میں مذہب سے متعلق منطقی بحث اور مکالموں کے رجحان کے فروغ میں بھی رکاوٹ کا باعث ہیں۔ بالخصوص سعودی عرب نے جس طرح اسی کی دہائی سے لے کر آج تک مسلم ممالک میں جہاد کی انڈسٹری کو فروغ دیتے ہوئے اپنا تسلط قائم رکھا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اگر عالمی قوتیں اب بھی سعودی عرب میں بادشاہت کے نظام کو ختم کرنے کیلئے دباؤ نہیں ڈالیں گی تو پھر دنیا میں امن کو ہمیشہ خطرہ موجود رہے گا۔



حقیقت میں مسلم امہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے

سعودی بادشاہت کو قائم رکھنے کیلئے سعودی بادشاہ مسلم امہ کا کارڈ کھیلتے ہیں جبکہ حقیقت میں مسلم امہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ وگرنہ سعودی عرب یمن کو تباہ و برباد نہ کر رہا ہوتا اور نہ ہی پراکسی جنگوں میں ترکی کے خلاف برسر پیکار ہوتا۔ جمال خاشقجی کے قتل سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ جب تک سعودی عرب میں بادشاہت اور مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ کر کے وہاں کے بسنے والے افراد کو اپنے نمائندے چننے کا موقع نہیں دیا جاتا تب تک جمال خاشقجی جیسے لاتعداد افراد ان بادشاہوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہیں گے اور مسلم دنیا کبھی بھی علم و آگہی اور شعور کی منازل طے نہیں کر پائے گی۔

محمد بن سلمان اس قابل بھی ہیں کہ حکومت چلا سکیں؟

دوسری جانب اس بھیانک قتل کے بعد سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد بن سلمان نفسیاتی اور ذہنی طور پر اس قابل ہیں کہ وہ امور حکومت چلا پائیں؟ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب پر دباؤ بڑھانے والی عالمی قوتوں کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب سے بادشاہت کے نظام کو ختم کرنے کیلئے بھرپور دباؤ برقرار رکھیں تاکہ خود سعودی عرب میں بسنے والے افراد اور مسلم دنیا کے دیگر ممالک کو سعودی بادشاہوں کے تسلط سے آزاد کروایا جا سکے۔ مسلم دنیا میں بسنے والوں کو  زندگی کی نعمتوں اور آسائشات سے منہ موڑ کر شدت پسندی کے اندھیروں کی جانب راغب کرنے میں سعودی بادشاہوں کا اہم کردار ہے اور اس بوسیدہ طرز آمریت کو ختم کر کے نہ صرف مستقبل میں کئی افراد کو جمال خاشقجی جیسے انجام سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ مسلم دنیا کو شدت پسندی اور سعودی بادشاہت کی استحصالی اور خود ساختہ مذہبی تشریح سے بچا کر انہیں شخصی آزادیوں اور جدید سماجی و ثقافتی اقدار کو اپنانے کی جانب راغب بھی کیا جا سکتا ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔