بین الاقوامی تعلقات سفاک ہوتے ہیں۔ ایک دن آپ سب کی آنکھ کا تارا ہیں، اگلے ہی دن دنیا آپ پر تھو تھو کر رہی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بھی ہے جن کے خلاف امریکی انٹیلیجنس کی خفیہ رپورٹ بالآخر بائیڈن انتظامیہ نے عوام کو جاری کر دی ہے۔
جون 2017 میں جب انہیں سعودی عرب کا ولی عہد بنایا گیا، یعنی یہ طے کر دیا گیا کہ موجودہ بادشاہ یعنی شاہ سلمان کے بعد محمد بن سلمان سعودی عرب کے بادشاہ بنیں گے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ محمد بن سلمان کے بارے میں پہلے ہی واضح تھا کہ یہ شاہ سلمان کے چہیتے ہیں اور گذشتہ دو سالوں سے سلطنت میں ان کا عمل دخل بڑھتا جا رہا تھا۔ 2016 کے امریکی انتخابات میں ڈانلڈ ٹرمپ فاتح ٹھہرے اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد سعودی عرب میں شاہ سلمان نے محمد بن سلمان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔
ابتدا میں محمد بن سلمان کے نظریات سے مغربی دنیا بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے سعودی عرب کے ایک جزیرے پر casino اور تمام تر دیگر عیاشیوں اور اخلاقی آلائشوں کے لئے سامان کرنے کے لئے ایک نیا شہر Neom بنانے کا اعلان کیا تو دنیا بھر کی نظریں سعودی عرب پر ٹک گئیں۔ ابتدائی چند مہینوں میں ہی سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت بھی دے دی گئی، اور پھر پائلٹ بننے کی بھی۔ مغربی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے یہ طریقے عرب دنیا میں کئی دہائیوں سے رائج ہیں۔ اس دوران شاہی خاندان کے کئی اہم افراد کو ان کے عہدوں سے برطرف کیے جانے پر ہونے والا احتجاج ان ’خوشخبریوں‘ کے شور میں دب کر رہ گیا۔ کئی شہزادوں اور بڑے کاروباری افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئیں، انہیں رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید رکھا گیا۔ بین القوامی میڈیا میں شور مچا تو کہا گیا کہ شہزادہ کرپشن سے تنگ ہے، اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ شاہی سطح کی بھتہ خوری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پورے سعودی خاندان کو ایک واضح پیغام بھی ہے کہ محمد بن سلمان ہی اب سلطنت کا حقیقی حکمران ہے۔ لیکن دنیا اس وقت صدر ٹرمپ سے جھوجھ رہی تھی، سعودی عرب کی طرف کون دھیان دیتا۔ ایک طرف تو مغربی اور سعودی میڈیا سعودی ولی عہد کی بلائیں لے رہا تھا کہ اس نے خواتین کو گاڑی چلانے کے حقوق دے دیے تو دوسری طرف سلطنت کے اندر خواتین کس صورتحال سے گزر رہی تھیں، اس کا اندازہ سمر بدوی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے ہی لگایا جا سکتا ہے جن کے بھائی رائف بدوی کو سعودی حکومت نے کئی سال سے ان کے آزادانہ خیالات کے باعث پابندِ سلاسل کر رکھا ہے۔ سمر، جو کہ اپنے والد کے خلاف کیے گئے مقدمے کے باعث دنیا بھر کی نظروں میں پہلی مرتبہ آئی تھیں، کہ جس کے مطابق ان کے والد انہیں ان کی پسند سے شادی کرنے نہیں دیتے تھے، رائف بدوی کے لئے احتجاج کرتے ہوئے 2016 میں گرفتار ہوئیں۔
2018 جولائی میں جس وقت دنیا بھر کا میڈیا سعودی عرب میں خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی ہٹانے پر محمد بن سلمان کی تعریفیں کر رہا تھا، سمر بدوی ایک مرتبہ پھر جیل میں ڈالی جا رہی تھیں۔ یہ وہی سمر بدوی تھیں جو 2011 سے سعودی خواتین کے گاڑی چلانے کے حق میں چلنے والی مہم کا حصہ تھیں۔ مگر ڈانلڈ ٹرمپ کو محض سعودی پیسے سے مطلب تھا۔ ان کے نزدیک سعودی حکومت اگر امریکہ سے اسلحہ خرید لے تو یہی ان کے لئے کافی تھا۔ اور حقیقت یہی ہے کہ یمن جنگ میں پھنسے ہوئے سعودی عرب کو بالآخر امریکہ سے اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدنا بھی پڑے۔
مگر اکتوبر 2018 میں محمد بن سلمان نے وہ غلطی کی جو کہ شاید ان کی تاحال سب سے خوفناک حرکت کہی جا سکتی ہے۔ انہوں نے جمال خاشقجی، جو کہ نہ صرف سعودی شاہی خاندان کا حصہ تھے، بلکہ امریکی شہری بھی تھے اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے باقاعدہ کالم نگار تھے، انہیں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی سفارتخانے میں بلایا گیا، جہاں سے وہ کبھی باہر نہیں آ سکے۔ انہیں سفارتخانے میں ہی قتل کر دیا گیا۔ مہذب دنیا کی تاریخ کا یہ ایک انوکھا واقعہ تھا۔ سفارتخانوں کو دنیا بھر میں سفارتی استثنا حاصل ہوتا ہے۔ ایسی جگہ پر کسی صحافی اور وہ بھی جو کہ امریکی شہری تھا کو قتل کرنا ایک حیرت انگیز سفاکی اور دلیری کا کام تھا جو کہ کم از کم اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ امریکی صدر کی مکمل اشیرباد حاصل نہ ہو۔ ترک حکومت کو بہت کچھ پتہ تھا، اگلے چند روز میں سامنے آنے والی بے شمار ویڈیو فوٹیج سے یہ تو واضح تھا کہ جمال خاشقجی سفارتخانے کے اندر گئے۔ یہ بھی طے تھا کہ ان کا اندر ہی قتل ہو گیا۔ لیکن ان کے جسم کا کیا گیا؟ ترک رپورٹس کے مطابق ان کے جسم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سفاتخانے کے اندر مختلف جگہوں پر دبا دیے گئے تھے۔ ترکی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ جمال خاشقجی کا قتل ہوا ہے۔
بعد میں سعودی حکومت نے کہا کہ ان کے جسم کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر ایک مقامی شخص کی مدد سے ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔ لیکن ایسی افواہیں بھی تھیں کہ خاشقجی کی لاش کو سعودی کونسلر جنرل کے گھر میں ایک کنوئیں میں پھینک دیا گیا تھا۔ تین مرتبہ اس کنوئیں کی تلاشی لینے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار اس کی تلاشی دینے سے انکار کیا جاتا رہا۔
امریکی انٹیلیجنس کے پاس اس حوالے سے حقائق موجود تھے لیکن ٹرمپ انتظامیہ محمد بن سلمان کی پشت پر کھڑی تھی۔ ایک طرف ٹرمپ سعودی عرب کو ہتھیار بیچنے میں مصروف تھا تو دوسری طرف ان کا داماد جیرڈ کشنر جو کہ محمد بن سلمان کا خاص دوست سمجھا جاتا ہے، ان سے اسلامی ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دباؤ ڈلوا رہا تھا۔ جو بائیڈن نے الیکشن مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر اس قتل سے جڑی انٹیلیجنس رپورٹ کو عام عوام کے پڑھنے کے لئے جاری کریں گے۔
جمعہ کی شام ایسا ہی ہوا جب امریکی نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کے دفتر سے یہ رپورٹ جاری کر دی گئی جس کے مطابق امریکی انٹیلیجنس کو یقین تھا کہ جمال خاشقجی کا قتل محمد بن سلمان کے حکم پر کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں فیصلہ سازی پر محمد بن سلمان کے مکمل کنٹرول کے باعث یہ واضح تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر ایسا کیا نہیں جا سکتا۔ آپریشن میں سعودی ولی عہد کی سکیورٹی کا اہم ترین افسر شامل تھا اور محمد بن سلمان اس کے علاوہ بھی بیرونِ ملک مقیم سعودی شہریوں کی تنقید کو بند کروانے کے لئے پرتشدد اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکی انٹیلیجنس کا کہنا ہے کہ 2017 کے بعد سے سعودی انتظامیہ پر محمد بن سلمان کا مکمل کنٹرول ہے۔ اس آپریشن میں شامل افراد اپنی جانوں کے حوالے سے بھی فکرمند تھے کیونکہ ملک میں ماحول ایسا تھا کہ اگر وہ یہ آپریشن کامیابی سے نہ انجام دے پاتے تو ان کو نوکری سے نکالا جاتا اور ساتھ گرفتار بھی کر لیا جاتا۔ لہٰذا وہ نہ تو محمد بن سلمان کے فیصلوں پر سوال اٹھا سکتے تھے اور نہ ہی ان کی مرضی کے بغیر اس قسم کے آپریشن کا حصہ بن سکتے تھے۔
15 رکنی ٹیم جس نے یہ قتل کیا، امریکی انٹیلیجنس کے مطابق اس میں سعودی اداروں اور شاہی دربار میں کام کرنے والے اہم افسران شامل تھے۔ سعودی سنٹر فار سٹڈیز اینڈ میڈیا افیئرز میں کام کرنے والے افراد اس آپریشن کا حصہ تھے اور اس کا سربراہ سعود القحطانی محمد بن سلمان کا انتہائی قریبی ہے۔ محمد بن سلمان کی ذاتی سکیورٹی فورس RIF کے سات ارکان بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ اس فورس کا کام ہی محمد بن سلمان کی حفاظت ہے اور یہ صرف انہی کو جوابدہ ہے۔ امریکی انٹیلیجنس نے ان 15 افراد کے نام بھی جاری کیے ہیں جو اس کے مطابق اس آپریشن کا حصہ تھے اور جو رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد کے حکم کے بغیر اس کا حصہ نہیں ہو سکتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سے محمد بن سلمان کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ محض ایک انٹیلیجنس رپورٹ ہے۔ دوسری بات یہ کہ ثبوت یا رپورٹ وغیرہ کا سعودی عدالت میں کوئی معنی ہی نہیں۔ البتہ بین الاقوامی برادری میں ان کی مخالفت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ امریکی صدر اس رپورٹ کے پبلک ہونے کے بعد ان کے ساتھ سفارتی تعلقات کیسے رکھ پائیں گے، یہ بھی ابھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ سعودی ولی عہد کو یقیناً اب بین الاقوامی دوستوں کی ضرورت پڑے گی جس کا پاکستان اور ہمارے جیسے دیگر ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ کاری تو مغرب سے ہی آ سکتی ہے۔ اس سب کا نتیجہ کیا ہوگا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ لیکن تجزیہ کار اسے محمد بن سلمان کے لئے ایک انتہائی مشکل صورتحال سے تعبیر کر رہے ہیں جو کہ ان کی بادشاہت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔