کیا سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معمہ کبھی حل ہو پائے گا؟

ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس میں ملوث 11 افراد کے خلاف تو ٹرائل چل رہا ہے تاہم اس فہرست میں سعودی ولی عہد کے مشیر سعودالقحطانی شامل نہیں ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سعودی پراسکیوٹرز نے کہا ہے کہ ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمدالعصیری نے استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کی نگرانی کی جب کہ انہیں سعودالقحطانی ہدایات دے رہے تھے۔

ان دونوں شخصیات کا شمار ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے جنہیں باقاعدہ طور پر برطرف کیا جا چکا ہے۔ احمد العصیری جنوری سے لے کر اب تک ہونے والی پانچوں سماعتوں میں پیش ہو چکے ہیں تاہم ذرائع کے مطابق، ٹرائل کا سامنا کرنے والی 11 شخصیات میں سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے، سعودالقحطانی کی عدم موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا سعودی حکام ان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں یا ان کے خلاف الگ سے کارروائی کی جائے گی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہو گا۔

سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹرز نے گزشتہ برس نومبر میں 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں سے پانچ کو سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔

سعود القحطانی اور احمد العصیری


ساری عدالتی کارروائی عربی زبان میں ہو رہی ہے جس میں صرف امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور ترکی کے سفیروں کو آنے کی اجازت ہے۔

اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ان سفارت کاروں کو مترجم ساتھ لانے کی اجازت نہیں جنہیں مختصر نوٹس پر مدعو کیا جاتا ہے۔

مقتول صحافی جمال خاشقجی کے خاندان کا ایک فرد ہی اب تک ایک عدالتی سیشن میں شریک ہوا ہے جو سعودی حکومت سے کسی بھی قسم کے تصفیہ کی تردید کر چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل اور دنیا کا بدلتا منظر نامہ

مغربی حکام کا کہنا ہے، غیر ملکی دوروں پر سعودی ولی عہد کے ساتھ سفر کرنے والے انٹیلی جنس کے رکن ماہر مطرب، فارنزک ماہر صلاح الطبیغی اور شاہی گارڈز کے رُکن فہد البلاوی ان 11 افراد میں شامل ہیں جنہیں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تاہم ان تمام ملزموں کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت ہے۔

ان مشتبہ افراد کی اکثریت نے عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے احمدالعصیری کے احکامات پر عمل کیا جنہیں انہوں نے اس آپریشن کا ’’رنگ‘‘ لیڈر قرار دیا ہے۔

سعودی وزارت اطلاعات نے اے ایف پی کی اس رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جب کہ ملزموں کے وکلا سے بھی رابطہ قائم نہیں ہو سکا۔



مغربی حکام کا کہنا ہے کہ احمدالعصیری کو سعودی فوج میں جنگی ہیرو کا درجہ حاصل ہے جنہیں سزائے موت کا سامنا نہیں ہے۔

وہ امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں جس کے باعث جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودی شہریوں پر پابندی سے متعلق جاری کی گئی دو امریکی فہرستوں میں بھی ان کا نام شامل نہیں ہے۔

باعث دلچسپ امر یہ ہے کہ سعودالقحطانی نے سعودی عرب کے ناقدین کے خلاف میڈیا پر مہم چلائی تھی اور جنہیں سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے، ان کا نام ان دونوں فہرستوں میں موجود ہے۔

سعودی عرب کے محکمہ پراسیکیوشن کے مطابق، سعودی سکواڈ کی ترکی روانگی سے قبل انہوں نے میڈیا اسپیشلائزیشن پر مبنی مشن سے متعلق اہم معلومات بتانے کے لیے ملاقات کی تھی تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے وہ اب تک سامنے نہیں آئے اور اس وقت وہ کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ یہ ایک معمہ بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا لرزہ خیز قتل: دنیا کو چند اہم فیصلے لینا ہوں گے

ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پس منظر میں رہتے ہوئے ان تمام حالات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ سعودی حکام کی ایک بڑی تعداد کا یہ ماننا ہے کہ وہ جماشل خاشقجی کے قتل کے باعث پیدا ہونے والے عالمی ردعمل کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ مقتول سعودی صحافی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد تصور کے جاتے تھے اور اپنی موت سے قبل وہ امریکہ میں مقیم تھے۔

تاہم گزشتہ برس اکتوبر میں اس وقت ان کا ذکر عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آیا جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی سفارت خانے میں داخل تو ہوئے لیکن واپس نہیں آئے جس کے بعد ان خدشات نے تقویت پائی کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

ترک حکام کا ماننا تھا کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر ہی قتل کیا جا چکا تھا جس کے باعث ترکی اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کا خطرہ بھی پیدا ہوا۔ سعودی سفیر نے صحافی کی گمشدگی پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیشکش کی تھی۔



تاہم کچھ ہی روز بعد یہ خبر آئی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے  شاہی خاندان کے پانچ ارکان گزشتہ ایک ہفتے سے غائب ہیں۔

تاہم، بعدازاں سامنے آنے والے شواہد کے باعث سعودی حکام نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کر لیا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والے ایک جھگڑے کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی تحقیق میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ سعودی صحافی کا قتل طاقت ور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔