کسی سے انتقام کی خواہش نہیں، تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا؛ نواز شریف

اپنی 40 سالہ سیاست کا نچوڑ بتا رہا ہوں کہ پاکستان تب تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک تمام ادارے مل کر کام نہیں کرتے۔ ملک کی ضرورت ہے کہ آئین پر عمل درآمد کرتے ہوئے تمام ادارے مل کر کام کریں۔ میرے دل میں کسی سے بھی انتقام کا رتی برابر جذبہ موجود نہیں۔

کسی سے انتقام کی خواہش نہیں، تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا؛ نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 4 سال بعد وطن واپس پہنچ گئے ہیں اور لاہور میں مینار پاکستان کے مقام پر عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ 6 سال بعد اپنے لوگوں سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے مگر ان 6 سالوں کی دوری سے ہمارے رشتے پر کوئی فرق نہیں پڑا، میں آج بھی آپ لوگوں سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ آپ بھی نواز شریف سے محبت کرتے ہیں۔

لاکھوں کی تعداد میں مجمع سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ میرے دل میں کسی سے بھی بدلے کی کوئی تمنا نہیں ہے، بس ایک ہی تمنا ہے کہ عوام کے گھر میں خوشیاں اور خوشحالی آئے۔ میں ملک اور عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اپنی 40 سالہ سیاست کا نچوڑ بتا رہا ہوں کہ پاکستان تب تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک تمام ادارے مل کر کام نہیں کرتے۔ ملک کی ضرورت ہے کہ آئین پر عمل درآمد کرتے ہوئے تمام ادارے مل کر کام کریں۔ میرے دل میں کسی سے بھی انتقام کا رتی برابر جذبہ موجود نہیں۔

قائد ن لیگ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک خودمختار خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ تمام ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ ہمسائیوں کے ساتھ لڑائی کر کے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے تدبیر کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ فلسطینیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا بہت بڑی زیادتی ہے، اسے پاکستان کے عوام اور ہم کبھی قبول نہیں کریں گے۔ مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا تو آج مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بیچ میں بھارت میں سے راہداری بنائی جا سکتی تھی۔

نواز شریف نے کہا اگر آپ پوچھتے ہیں کہ ہمارا بیانیہ کیا ہے تو ہمارا بیانیہ کراچی کی گرین لائن سے پوچھیں، لاہور کی اورنج لائن سے پوچھیں، لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں بنی میٹرو بس سروس سے پوچھیں، بجلی، پیٹرول کی قیمتوں سے پوچھیں، پورے ملک میں بنائے موٹرویز سے پوچھیں، 1998 میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں سے پوچھیں۔ ہمارا بیانیہ ملکی ترقی اور خوشحالی ہے۔ میرے دور میں روٹی، بجلی، پٹرول، ڈالر کی قیمتیں کہاں تھیں اور آج کہاں ہیں؟ ایک ہنستے بستے ملک کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔ ہمارے دور میں ملک ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا۔ ہم ملک کو جی 20 میں لے کر جا رہے تھے مگر مجھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔

انہوں نے کہا 2013 میں 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی جسے ہم نے دن رات محنت کر کے 2017 میں ختم کر دیا۔ 2017 میں جب ہم گھر گھر بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنا رہے تھے تب ہمارے خلاف ملک میں مظاہرے کیے جا رہے تھے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ دھرنے کون کروا رہا تھا۔ آپ کو بھی پتہ ہے کہ ان کے پیچھے کون تھا۔ بجلی کے زیادہ بلوں کا معاملہ شہباز شریف حکومت میں شروع نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔

انہوں نے تقریر کے دوران مرزا غالب کا شعر بھی سنایا؛

؎ غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے

اپنی اہلیہ کو یاد کرتے ہوئے نواز شریف جذباتی ہو گئے اور انہوں نے بتایا کہ میں اڈیالہ جیل میں تھا جب اہلیہ کلثوم نواز کے فوت ہونے کی خبر دی گئی۔ میری درخواست کے باوجود اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے لندن میں پڑی بیمار اہلیہ یا بچوں سے بات نہیں کروائی اور ڈھائی گھنٹے بعد اطلاع دی گئی کہ کلثوم نواز دنیا میں نہیں رہیں۔ بیٹی مریم بھی میرے ساتھ ہی قید تھیں۔ جیل میں ہمارے لیے یہ خبر اور بھی بری ہو گئی تھی۔ والد، والدہ اور اہلیہ کو قبر میں نہیں اتار سکا، میرے پیارے میری سیاست کی نذر ہو گئے۔

نواز شریف نے کہا کہ میں نے آج بہت ضبط سے کام لیا ہے، ایسی کوئی بات نہیں کی جو کرنی چاہئیے تھی۔ مستقبل سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے، نئی موٹرویز بنائیں گے۔ تسبیح میرے پاس بھی ہے مگر میری کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کے سامنے نہ پڑھوں۔ ہم نے گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا، مجھے یہ نہیں آتا کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ آج ہمیں ایک نئے سفر کے آغاز کی ضرورت ہے۔ دوگنی رفتار سے کام کرنا ہو گا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہو گا۔ ہمیں ہمیشہ کے لیے کشکول توڑنے کا عہد کرنا ہو گا۔ راستہ کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ہمیں برآمدات بڑھانی ہیں اور زراعت میں انقلابی اصلاحات لانی ہیں۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یا اللہ اس ملک کی تقدیر بدل دے۔

یاد رہے سابق وزیر اعظم نواز شریف 4 سال برطانیہ میں رہنے کے بعد آج ہی وطن واپس آئے ہیں۔ دبئی سے خصوصی طیارے پر پہلے وہ اسلام آباد پہنچے اور پھر وہاں سے انہیں لاہور لایا گیا۔ لاہور ایئرپورٹ سے ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر شاہی قلعہ کے پاس بنے ہیلی پیڈ پر اترے۔ یہاں سے گاڑی میں سوار ہو کر جلسہ گاہ پہنچے۔ ان کی گاڑی حمزہ شہباز شریف چلا رہے تھے۔ سٹیج پر مریم نواز اور شہباز شریف کو گلے لگایا۔ مریم نواز اپنے والد کے گلے لگ کر آبدیدہ ہو گئیں۔ نواز شریف کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ نواز شریف اپنے سامنے عوام کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر خاصے جذباتی ہو گئے تھے۔