عوامی سطح پر غم و غصے کی لہر ہی شاید وہ ’حجت‘ ہے جو حکومت وقت کو ان حیوانوں کو کیفرکردار تک پہنچانے پر مجبور کر رہی ہے، جنہوں نے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک ماں کو بچوں کے سامنے درندگی کا نشانہ بنایا۔ سانحے کا ایک ملزم شفقت گرفتار ہو چکا ہے جب کہ دوسرا ملزم عابد تادم تحریر جدید اور سائنٹیفک طریقوں سے پیچھا کرنے والی پولیس کو کھیتوں کھلیانوں میں چکمے دینے میں مصروف ہے۔
سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ کیا اس دلخراش سانحے میں عابد اور شفقت ہی وہ واحد ملزمان ہیں، جو خاتون کی حرمت کو پامال کرنے کے اس گھناؤنے جرم کے ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں؟
کیا اس ماں کی عزت تار تار کرنے کے ذمہ دار وہ ادارے اور ان کے اہلکار نہیں، جو ہیلپ لائن پر مدد طلب کرتی اس نہتی خاتون کو بے حسی اور اخلاقی پستی کی ردواد سنا کر بھیڑیوں کے سامنے ڈال گئے۔
بے شک سی سی پی او عمر شیخ نے اس خاتون کے جسم کو نہیں بھبھوڑا لیکن کیا اس آفیسر نے خاتون کی تذلیل کرنے میں کہیں کوئی کسر چھوڑی؟ اگرچہ پولیس آفیسر اپنی ذہنی غلاظت کے اخراج پر معذرت کے وقتی ڈھکن سے کام چلا کر خود کو محفوظ کر چکے ہیں۔ پر کاش اس آفیسر کو تھپکی دینے والے سانحے کی اس مظلوم خاتون کی حرمت کی قیمت بھی اس ’بیٹی‘ کے عزت کے مساوی لگاتے، جس کے لئے پاکپتن کے ڈی پی او کا راتوں رات تبادلہ کر دیا گیا۔
جب یہ سفاک پولیس آفیسر خاتون کی ’غلطیوں‘ کو انگلیوں پر گنوانے میں مصروف تھا، تو اس قبیح فعل پر نہ تو پڑھے لکھے وزیر برائے منصوبہ بندی کو کوئی ’غیر قانونی‘ بات نظر آئی اور نہ ہی اس میں لندن پلٹ مشیر داخلہ کو کوئی ’تنازع‘ دیکھا۔ ایک معاونِ خصوصی کو تو ملزم کے ڈی این اے میچ ہونے کی خبر پر وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان شخص کو مبارکباد دینے کی سوجھی، برخوردار یہ قابل مزمت حرکت اس شخص کا دل جیتنے کے لئے کر رہا تھا، جس کا چہرہ ملزم کے کامیاب فرار کی خبر کے باوجود پشیمانی کی شکنوں سے عاری تھا۔ آخر ان باعثِ شرم رویوں پر اخلاقی احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟
ایسوں کا مواخذہ کر کون سکتا ہے، جب حاکم ریاستِ خود اس لرزہ براندام کر دینے والی واردات میں برتی جانے والی کوتاہیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے قوم کو ’عضو تناسل‘ سے جڑی نئی بحث میں الجھا کے بری الذمہ ہو جائے؟ وزیراعظم صاحب شاید بھول چکے ہیں کہ ایسے جرائم کے تدارک کے لئے فوری انصاف اور پولیس ریفارمز جیسی اصلاحات نہ کر کے وہ بھی گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
پر وزیر اعظم کو آئینہ کون دکھائے؟ اپوزیشن رہنما تو اس گھناؤنی واردات پر تالیوں کی بوچھاڑ میں موٹروے بنانے کا کریڈٹ لیتے نظر آئے۔ اسمبلی کے ارکان کے اخلاقی دیوالیہ پن کو وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی سنجیدہ تقریر پر لگنے والے قہقوں نے ہی ظاہر کر دیا جب کہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کو تو گریڈ 20 کے ایک آفیسر کی حکم عدولی کے بعد اپنے حقوق کے تحفظ کی زیادہ ضرورت ہے۔
ستم بالائے ستم اس سانحے میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سزا اور جزا کی ’بڑی دکان‘ سے فقط تشویش کا ’لولی پاپ‘ ہی دستیاب ہوا، ’چھوٹی دکان‘ نے سڑکوں پر گشت بڑھانے کا حکم صادر کر کے گاہک کو خالی ہاتھ بھیجنے کی ہزیمت سے خود کو بچایا۔ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ سسٹم خاتون کو کرونا جتنی عزت ہی کیوں نہیں بخشتا، ملک میں خواتین کے تحفظ کے ناکافی اقدامات پر ایک اور ازخود نوٹس بھی تو لیا جا سکتا تھا۔ چلیں اگر اس میں میں کوئی ’حکمت‘ پوشیدہ ہے تو حضور ریپ کیسز میں فقط پانچ فیصد سزائیں ہونے کی گتھی کو ہی سلجھا دیجیے۔
دوسری طرف اس سانحے پر دین فطرت کے کچھ داعی مظلوم کا تحفظ کرنے کی بجائے ’رہزن‘ بننے پر تلے ںظر آئے۔ ایک رنگین مولوی خاتون کے حق میں آواز آٹھانے والوں پر اوباش چھوڑنے کی دھمکی دیتا پھرا، جب کہ تمغہ امتیاز یافتہ ’ملا‘ نے مخلوط تعلیمی نظام کو بنیاد بنا کر ریپ کرنے والوں کی ’بخشش‘ کا سامان کر دیا۔
موٹروے سانحے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جائے تو حقائق سے معلوم پڑے گا کہ اس گھناؤنے جرم میں فقط عابد اور شفقت ہی شریک نہیں ہیں، بلکہ ان کے لئے راہ ہموار کرنے والا ہمارا کھوکھلا نظام بھی برابر کا مجرم ہے۔