سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے لیے جب بھی ممکن ہوگا ’مثبت کردار ادا‘ کرسکتے ہیں۔
بھارت کے تین روزہ دورے کے دوران اتوار کو دی ہندو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے افغانستان اور سعودی عرب کے بھارت سے تعلقات سمیت متعدد موضوعات پر بات کی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ہم مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہ فیصلہ کرنا بھارت اور پاکستان پر منحصر ہے کہ کون سا وقت صحیح ہے۔
انٹرویو لینے والے نے جب ان سے پوچھا کہ کیا بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ایک مسئلہ، مقبوضہ کشمیر، بھارتی مسلمانوں کی حیثیت اور فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے سعودی زیر قیادت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے بیانات تھے، کیا انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں اس پر تبادلہ خیال کیا؟ تو سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ ’داخلی مسائل‘ ہیں۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ان خدشات کو دور کرنا بھارت کے عوام اور حکومت کا کام ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین ’تنازع‘ جاری رہے گا۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے انٹرویو میں کہا کہ میرے خیال میں بین الاقوامی امداد بنیادی طور پر افغان عوام کے فائدے کے لیے ہے اور اس لیے ہمارا مؤقف یہ ہے کہ امداد جاری رہنی چاہیے اور ان حالات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر تنازع اور عرب بلاک
5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر پاکستان کو عمومی طور پر عالمی سطح پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ مسلم امہ کے بلاک کی جانب رجوع کرنے پر بھی عرب ممالک کے عمائدین نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تاہم اس معاملے پر پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری بھی دیکھنے میں آئی۔ اس واقعہ کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اگست 2019 کے بعد سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ سے ملاقات کے دوران عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت رکوانے اور اس کے غیر قانونی اقدام کو واپس لینے کے لیے نئی دہلی پر دباؤ ڈالا جائے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے وزرائے خارجہ نے مسئلہ کشمیر پر دورہ پاکستان کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کی تھیں۔
وزیر اعظم عمران خان سے سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل بن احمد الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید بن سلطان النہیان نے وزیر اعظم آفس میں ملاقات کی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ملاقات میں موجود تھے۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی میڈیا میں رپورٹ ہونے والی تفصیلات کے مطابق ان ملاقاتوں میں عرب دوستوں نے پاکستان پر واضح کیا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع ہے، اسے مسلم امّہ کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
شاہ محمود قریشی کا بیان جو ایک ارب ڈالر کا پڑا
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے ایک پروگرام میں کہا کہ ’میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا مسلمان اور پاکستانی جو آپ کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے لڑ مرنے کے لیے تیار ہیں آج وہ آپ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ آپ وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں جس کی امت مسلمہ آپ سے توقع کر رہی ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاؤ کی پالیسی نہ کھیلے۔ انھوں نے کہا کہ کانفرنس کی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں خود وزیر اعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق یہ اجلاس او آئی سی کے پلیٹ فارم یا اس سے ہٹ کر بلایا جائے۔
شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک جملے میں لفظ ’ورنہ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا نکتہ نظر ہے، اگر نا کیا تو میں عمران خان صاحب سے کہوں گا کہ سفیرِ کشمیر اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہو گا ود اور ود آؤٹ۔
جب میزبان نے سوال پوچھا کہ پاکستان ’وِد اور ودآؤٹ` سعودی عرب کے اس کانفرنس میں شریک ہو گا تو شاہ محمود قریشی نے ایک توقف سے جواب دیا کہ ’ود اور ود آؤٹ‘۔
وزارتِ خزانہ کے افسران کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے قرض میں سے ایک ارب ڈالر کی واپسی کا تقاضا کیا تھا جس کے بعد پاکستان نے چین سے قرض لے کر اس رقم کو سعودی عرب کے حوالے کیا۔
یو اے ای کا نام پہلے بھی پاک بھارت تعلقات بحالی کے حوالے سے آتا رہا
اس سال کے آغاز میں اچانک بھارت اور پاکستان میں عسکری سطح کے رابطے ہوئے تھے جس پر اکثر حلقے حیرانی کا اظہار کررہے تھے تاہم اس بابت اب بین الاقوامی جریدے بلومبرگ نے سنسنی خیز انکشاف کیا تھا۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاک بھارت تعلقات میں گرمجوشی کے پیچھے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے اعلیٰ ترین شخصیات تھیں۔ بلموبرگ کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر ایک عرصے سے کام ہو رہا تھا۔
اس منصوبے کے تحت سب سے پہلا کام اسلام آباد اور دہلی کے درمیان سفرا کی تعیناتی پر اتفاق ہوگا۔ دوسرا اور مشکل کام معطل شدہ پاک بھارت تجارت کی بحالی اور کمشیر کے مسئلے کا حل ہوگا۔ جبکہ دونوں ملکوں کے عہدہدار خیال کرتے ہیں کہ شاید تجارت کی بحالی سے زیادہ دونوں ممالک کو کچھ حاصل نہ ہو۔
بلومبرگ نے لکھا کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکی صدر بائیڈن افغانستان میں ایک وسیع الشراکت امن عمل کا آغاز چاہتے ہیں۔ افغانستان جہاں یہ دونوں ممالک اپنا اثررسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی بھارت چین کے ساتھ معاملات چاہتا ہے تو پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو فعال چاہتا ہے۔
بلومبرگ کے مطابق دونوں ممالک کی حالیہ قربت کے پیچھے یو اے ای کا کردار ملک کے ولی عہد محمد بن زید النہان کی مرہون منت ہے جو کہ عرب خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے ذریعئے اپنے ملک کی پوزیشن تبدیل کر چکے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں اس پیش رفت کی کی تفصیل بمطابق واقعہ بیان کرتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے کہ یو اے ای کی جانب سے بہت سے ایسے اقدامات تھے جن سے یہ بھنک پڑتی تھی کی عرب ملک اس وقت پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لییے سرگرم ہے۔