'ڈالر 250 روپے کا ہے، اس پر لائیں'؛ منی چینجرز کو واضح پیغام

میٹنگ میں جب سب مطلوبہ لوگ پہنچ گئے تو ایک شخص وہاں آیا اور کہا کہ ہم نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ ہمارے مطابق ڈالر کی اصل قیمت 250 روپے ہے۔ ڈالر کو 250 روپے تک لے کر آنا ہے اور اگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔

'ڈالر 250 روپے کا ہے، اس پر لائیں'؛ منی چینجرز کو واضح پیغام

ملک بھر کے معروف منی چینجرز کو ذمہ داران کی جانب سے واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ ڈالر کی اصل قدر 250 روپے ہے اور اسے ہر صورت 250 تک لے کر آئیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ ایک اہم شخصیت نے پاکستان کے بڑے منی چینجرز کو ملاقات کے لیے اسلام آباد بلایا اور مختصر ملاقات میں انہیں وارننگ جاری کی۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ پاکستان کو ہمیشہ سے ڈالر کی کمی کا سامنا رہا ہے اور ملکی برآمدات پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول نہیں بنایا گیا۔ لیکن اس کمی کا ایک فیکٹر پاکستان میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والا مافیا بھی ہے، چاہے وہ منی ایکسچینجرز ہوں یا پھر مارکیٹ میں موجود ایسے لوگ جو ڈالر کو منافع اور کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں روپیہ بے قدری کا شکار ہے وہاں اگر آپ آج ڈالر خریدیں اور 4 ماہ بعد فروخت کریں تو منافع ضرور ہو گا۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ جو محفوظ سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ یا تو پراپرٹی میں پیسہ لگاتے ہیں، یا سونا خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ ڈالر بھی خریدتے ہیں اور اسے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ ڈالر کو پاکستان میں منافع بخش کاروبار کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ روپے کی قدر میں کمی آتی رہتی ہے۔ طلب اور رسد کا مسئلہ تو تھا ہی لیکن روپے کی قدر میں آنے والی گراوٹ میں مارکیٹ میں بیٹھے ان 'پلیئرز' کا بھی ہاتھ رہا ہے۔

5 ستمبر کو جب اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کی قدر آسمان کو چُھونے لگی تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کچھ سخت اقدامات لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ کچھ انتظامی تبدیلیاں کی گئیں۔ خصوصی طور پر جو لوگ منی چینجرز مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر رہے تھے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈالرز کی سمگلنگ بھی روپے کی بے قدری کی بہت بڑی وجہ ہے۔ افغانستان میں ڈالر کی فراوانی نہیں ہے اور پابندی ہونے کی وجہ سے صرف انسانی حقوق کی بنیادوں پر ملنے والی امداد کے علاوہ انہیں ڈالرز نہیں ملتے تو وہ اپنی ڈالرز کی کمی پاکستان سے پوری کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ 5 بلین ڈالرز افغانستان سمگل کیے جا رہے تھے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کرنسی کا ایک تہائی اس وقت افغانستان کی مارکیٹ میں موجود ہے جو اندازے کے مطابق 3 ہزار ارب روپے بنتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر نوٹ 5 ہزار کے ہیں جن سے ڈالرز آسانی سے خریدے جا رہے ہیں۔ ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا گیا جس سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر ایک اہم شخصیت کی جانب سے نامی گرامی 'منی ایکسچینجرز' کو میٹنگ کے لیے اسلام آباد بلایا گیا۔ اس میٹنگ کے بارے میں منی چینجرز کا خیال تھا کہ بہت اچھی میٹنگ ہو گی اور ہم اپنی تجاویز بھی دیں گے مگر ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ میٹنگ میں جب سب مطلوبہ لوگ پہنچ گئے تو ایک شخص وہاں آیا اور کہا کہ ہم نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ ہمارے مطابق ڈالر کی اصل قیمت 250 روپے ہے۔ ڈالر کو 250 روپے تک لے کر آنا ہے اور اگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ یہ پیغام دے کر وہ اہم اہلکار بغیر کوئی بات سنے وہاں سے چلے گئے۔ میٹنگ کا دورانیہ بس 2 منٹ کا تھا۔ میٹنگ کے شرکا کا خیال تھا کہ میٹنگ لمبی چلے گی اور انہیں بھی کچھ بات کرنے کا موقع ملے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بعد ازاں جن لوگوں کے توسط سے اس میٹنگ کو ارینج کیا گیا تھا وہ لوگ شرکاء کی جانب سے دوبارہ ملنے کا پیغام لے کر اہلکار کے پاس گئے تو انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جو پیغام ان کو دینا تھا وہ دے دیا ہے۔ اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے تو خود ذمہ دار ہوں گے۔

اس کے علاوہ ایک اور میٹنگ بھی ہوئی جس میں اندازہ لگایا گیا کہ حقیقی ایکسچینج ریٹ 250 روپے ہونا چاہئیے۔ جب کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 333 روپے سے گر کر بتدریج 296 روپے تک آ گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ڈالر واقعی 250 روپے کا ہے اور اس ریٹ پر واپس آ جائے گا؟

کامران یوسف کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے ڈالر کو 250 روپے تک لانا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے کچھ بنیادی معاشی اعشاریوں کو ٹھیک کرنا ناگزیر ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں اسی صورت اضافہ ہو سکتا ہے جب برآمدات میں اضافہ ہو، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں، سرمایہ کاری آجائے۔ قیاس آرائیاں تو بہت ہو رہی ہیں اور آرمی چیف کی جانب سے ملکی کاروباری شخصیات کے ساتھ میٹنگ میں بتایا بھی گیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 70 ارب کی سرمایہ کاری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ کہا جا رہا ہے کہ آئندہ چند روز میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان متوقع ہے اور اس دوران وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق اعلان کریں گے۔ لیکن اعلان ہو جانے کے باوجود ملک میں ڈالرز کی ریل پیل ہونے میں وقت لگے گا۔

صحافی کے مطابق روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر اگر 280 روپے تک بھی آ جاتی ہے تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اگر روپے کی قدر کچھ مستحکم ہوئی تو ممکن ہے کہ نگران حکومت کی جانب سے عوام کو پٹرول یا بجلی کی قیمت میں کچھ ریلیف بھی ملے۔

سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ انتظامی اقدامات کی بنیاد پر کب تک روپے کی قدر کو کنٹرول کیا جا سکے گا؟ بالآخر اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے ملکی برآمدات بڑھانی ہوں گی، سرمایہ کاری لانی ہو گی، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے ہوں گے۔ جب سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس وافر مقدار میں ڈالر موجود ہوں گے تو مارکیٹ میں بیٹھے لوگوں کو ذخیرہ اندوزی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔