مالیاتی مشکلات کے عفریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

ایک بات طے ہے کہ ہم دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کیے بغیر اور شاہانہ حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی کی عدم موجودگی میں اپنے مالیاتی مسائل پر قابو نہیں پا سکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مصلحتوں سے کام لینے کی پالیسی ترک کر دی جائے۔

مالیاتی مشکلات کے عفریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین اور شدید مالیاتی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے، مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے، حقیقت پسندی اور معروضیت پر مبنی مارکیٹ کے مواقع مہیا کرنے، قانون کی خلاف ورزی کا رجحان ختم کرنے اور بااثر افراد کی طرف سے ناجائز طریقوں سے بھاری منافع کمانے کے طریقے مسدود کرنے اور حکمرانوں کی طرف سے اندھا دھند قرض لینے اور شاہوں کی طرح خرچ کرنے کا وتیرہ بدلنے کے لیے درکار سیاسی عزم کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔

اس کے علاوہ جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس وصولی کی شرح میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ مالی سال 2022-23 میں یہ جی ڈی پی کا محض 9.2 فیصد تھی اور تمام محصولات، ٹیکس اور غیر ٹیکس، کی شرح 11.4 فیصد تھی، جبکہ وفاق اور صوبوں کا کل خرچ جی ڈی پی کا 19.1 فیصد تھا۔ یہ ہے ہماری مالی مشکلات کی اصل وجہ۔ ماہرین ان امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں، لیکن حکومت اپنے طرز عمل پر نظرِ ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں۔

سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 140 الف کی واضح ہدایت کے باوجود حکمران اشرافیہ انتظامی، سیاسی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں تک منتقل کرنے پر آمادہ نہیں۔

مقامی حکومت

آرٹیکل 140 الف؛

'ہر ایک صوبہ قانون کے ذریعے مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتحب نمائندوں کو منتقل کر دے گا'۔

مالی عدم مرکزیت اور شہری سہولیات کی فراہمی کو عالمی طور پر مسلمہ اور قابل عمل سماجی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے جو شہریوں کی سماجی اور شہری سہولیات تک رسائی کی ضمانت دیتی ہے۔ نمائندگی کے بغیر ٹیکسز کا نفاذ کرتے ہوئے ہیلتھ کیئر (صحت عامہ)، تعلیم، عوامی ٹرانسپورٹ، پینے کے صاف پانی، سماجی سہولیات، توانائی (بجلی اور گیس وغیرہ) کی فراہمی، بے کار مادوں کو ٹھکانے لگانے، گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور ماحول کو مدِنظر رکھتے ہوئے تعمیرات کی اجازت دینے کے معاملات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

اس وقت تمام وسیع البنیاد ٹیکسز وصول کرنے کے اختیارات وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔ سال 2022-23 میں صوبوں نے مجموعی جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد ٹیکس اور غیر ٹیکس ریونیو حاصل کیا جس میں ٹیکس کی شرح صرف 0.08 فیصد تھی۔

صوبے کل قومی ٹیکس محصولات کا صرف 7 فیصد اکٹھا کر رہے ہیں جبکہ ٹیکس اور غیر ٹیکس ریونیو کو ملا کر صوبے قومی محصولات کا 8 فیصد جمع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اخراجات کے لیے مکمل طور پر وفاقی حکومت پر انحصار کرتے ہیں۔ اس میں پریشان کن بات یہ ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت گیس، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سروسز پر عائد کیا جانے والا سیلز ٹیکس اور کئی ایک اشیا پر ایکسائز ڈیوٹی وفاقی حکومت وصول کرتی ہے۔ اس طرح صوبوں کے ٹیکس کے استحقاق کی پامالی کرتے ہوئے ٹیکس وصول کرنے کے باوجود وفاقی حکومت بھاری بھرکم مالیاتی خسارہ پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ 2022-23 میں یہ خسارہ 6.5 ٹریلین روپے تھا جبکہ اس سال 7.5 ٹریلین روپے تک جا پہنچنے کا خدشہ ہے۔

بدقسمتی سے صوبوں کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اپنے وسائل خود پیدا کریں۔ اگر ایسا ہوتا تو موجودہ پریشان کن مالیاتی بحران سے بچا جا سکتا تھا۔

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ صوبوں کے پاس سیلز ٹیکس وصول کرنے کے لیے درکار انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ تاہم یہ دعویٰ درست نہیں کیونکہ سندھ اور پنجاب نے 2011 اور 2012 میں اپنا ٹیکس اپریٹس قائم کرتے ہوئے سروسز پر ایف بی آر سے زیادہ ٹیکس جمع کر لیا تھا۔ 2013 میں خیبر پختونخوا نے بھی ان کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے بہت اچھے نتائج دیے اور اب بلوچستان بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔

اس وقت ہمیں فوری طور پر آئین پاکستان میں ترمیم کی ضرورت ہے تا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان منصفانہ ٹیکس کا نظام قائم کیا جا سکے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا، صوبوں کو بہت حد تک این ایف سی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اشیا کے استعمال پر بالواسطہ ٹیکس وصول کرنے کا حق صوبوں کو مل جائے تو وہ آخر وفاقی یونٹس کو ہی تقویت دیں گے اور اس طرح جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس وصول کرنا ممکن ہو جائے گا۔ سیلز ٹیکس کے حوالے سے صوبوں پر عدم اعتماد کرنا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ اگر اشیائے ضروریات پر سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا حق صوبوں کو سونپ دیا جائے، جیسا کہ آزادی کے وقت تھا، تو ان کی اس ضمن کارکردگی نکھر کر سامنے آئے گی۔

تاہم زرعی ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے صوبوں کی کارکردگی یقینی طور پر بہت افسوس ناک ہے، لیکن اس حمام (زرعی ٹیکس کا نفاذ) میں وفاق کا حال بھی صوبوں سے بہتر نہیں کیونکہ ملک کی مجموعی اشرافیہ، چاہے اس کا تعلق وفاق سے ہو یا صوبائی حکومتوں سے، تمام تر سیاسی اختلاف کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ دولت مند جاگیرداروں کو ٹیکس کی زحمت سے بچایا جائے۔ چنانچہ بھاری بھرکم زرعی پیداوار کے باوجود 2022-23 میں صوبوں اور وفاق نے مجموعی طور پر 3 بلین روپے سے کم زرعی ٹیکس جمع کیا۔ ملک و قوم کا درد رکھنے والے حلقوں کے لیے یہ ایک قابلِ تشویش بات ہے۔

ضروری ہے کہ زرعی ٹیکس اور انکم ٹیکس کی وصولی وفاق کے پاس رہے جبکہ سیلز ٹیکس کا حق صوبوں کو دیا جائے۔

اگرچہ صوبوں کو اپنے ہاں تیار کردہ اشیا پر سیلز ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں لیکن وفاقی حکومت بھی واجب الادا سیلز ٹیکس کی وصولی میں ناکام ہو چکی ہے۔ ایف بی آر کی اس ناکامی نے صوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2022-23 کے مالی سال کے دوران ایف بی آر کی کوتاہی کی وجہ سے سیلز ٹیکس کی وصولی میں 400 بلین روپے سے زائد کمی رہی، اس لیے چاروں صوبے این ایف سی میں اپنا واجب حصہ وصول نہ کر سکے۔ ایس آر اوز کے تحت ٹیکس میں چھوٹ اور رعایت دینے کی پالیسی کی وجہ سے اس سے کہیں زیادہ مالیاتی خسارہ ہو جاتا ہے جس کا ہر بجٹ میں اعتراف کیا جاتا ہے۔

ایف بی آر پچھلے سال ماضی کی طرح ٹیکس کے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ملک کی معاشی گراوٹ کے باوجود 20 ملین افراد کی آمدن ٹیکس کی بنیادی چھوٹ سے زائد ہے جبکہ انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرنے والے افراد محض 4 ملین ہیں اور ان میں سے بھی اکثریت نے کوئی قابل ٹیکس آمدن نہیں ظاہر کی۔

کل آبادی میں سے 5 ملین افراد ایسے ہیں جنہیں دولت مند قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ 10 ملین افراد کو اپر مڈل کلاس میں شمار کیا جا سکتا ہے جبکہ 30 ملین افراد سفید پوش ہیں۔

تقریباً 70 ملین افراد وہ ہیں جنہیں انتہائی غریب قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارا ٹیکس کا نظام 5 ملین دولت مند افراد سے نظریں چرا کر درمیانے تنخواہ دار طبقے، مڈل کلاس اور غریب ترین افراد پر ٹیکس عائد کرتا ہے۔ اس وقت 120 ملین موبائل فون استعمال کرنے والے 15 فیصد پیشگی adjustable انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں جن میں وہ غریب ترین افراد بھی شامل ہیں جو بینظیر انکم سپورٹ حاصل کر رہے ہیں۔ ان حقاق کے باوجود ٹیکس حکام اور ان کے ہم نوا غیر ملکی مالیاتی ادارے اور کچھ TV ٹاک شوز کے اینکرز پوری قوم کو ٹیکس چور ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اس بات کا تذکرہ کم ہی کرتے ہیں کہ طاقتور امیر طبقات کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کا کل حجم 1500 ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔

ہم اپنے پچھلے کئی کالموں میں بارہا اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ ملک میں وفاقی اور صوبائی سطح پر 16 ٹریلین ٹیکس حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے، لیکن ایف بی آر اور صوبائی ادارے اس گنجائش سے کہیں کم ٹیکس جمع کرتے ہیں۔ ایک طرف تو عوام پر بھاری ٹیکسز کی بھرمار ہے اور دوسری طرف طاقتور طبقات کو چھوٹ اور پھر حاصل شدہ محصولات کو اپنے عیش و عشرت کے استعمال کی کھلی چھٹی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں مالیاتی بحران کا پیدا ہونا فطری ہے۔

اگر موجودہ صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو پاکستان مزید مالیاتی بحران کی دلدل میں دھنستا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں امیر مزید دولت مند اور غریب مزید غریب ہوتے جائیں گے۔ اگر ہم اس بحران سے نجات چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ کو صوبوں اور وفاق کے درمیان موجودہ ٹیکس وصول کرنے کے حق پر نظرِثانی کرنی ہو گی۔ ٹیکس وصول کرنے کے منصفانہ حق کی غیر موجودگی میں صوبائی خودمختاری کا تصور مہمل اور دھندلا رہے گا۔

ایک بات طے ہے کہ ہم دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کیے بغیر اور شاہانہ حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی کی عدم موجودگی میں اپنے مالیاتی مسائل پر قابو نہیں پا سکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مصلحتوں سے کام لینے کی پالیسی ترک کر دی جائے۔ جمہوریت پر صرف چند ہزار افراد کا ہی نہیں بلکہ 240 ملین افراد کا بھی حق ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے وفاق صوبوں کو زیادہ سے زیادہ وسائل پیدا کرنے اور ان پر ٹیکس لگانے کی اجازت دے تا کہ ملک پر طاری مالیاتی جمود کو توڑا جا سکے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔