توہین کا غلط الزام لگایا، آپ جیسے دانشوروں نے کبھی آمروں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی: قاضی فائز عیسیٰ کا طاہر اشرفی کو جواب

توہین کا غلط الزام لگایا، آپ جیسے دانشوروں نے کبھی آمروں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی: قاضی فائز عیسیٰ کا طاہر اشرفی کو جواب
سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ علامہ طاہر محمود اشرفی کے ان سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط پر مولانا طاہر اشرفی کے نام جوابی خط لکھا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے خط میں لکھا کہ بہت تعجب ہوا کہ میری پیٹھ پیچھے آپ نے مجھے کاپی بھجوائے بغیر 11 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان کےنام خط لکھا۔

آپ نے 11 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان کے نام خط لکھا، آپ نے خط کی کاپی مجھے فراہم کرنا بھی مناسب نہ سمجھا، آئین میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ عدالت عظمیٰ کے کسی جج کو کوئی تنبیہ کرے، بہتر ہوتا آپ مجھ سے براہ راست مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے، آپ نے مجھ سے وہ کلمات منسوب کیے جو میں نے تقریر کی نہ زبانی ادا کیے۔

"مجھے کسی عہدے کی ضرورت نہیں ہے، جب محسوس ہوا کہ انصاف فراہم نہیں کر سکتا خود مستعفی ہو جاؤں گا۔"

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خط میں لکھا گیا ہے کہ آپ جیسے دانشوروں نے کبھی آمروں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، میری تقریر آئین، اسلام اور بنیادی حقوق سے متعلق تھی، آپ نے میری تقریر کو اسلام اور قرآن کے منافی کہا، اگر آپ نے اس موضوع پر کچھ لکھا ہے تو مجھے ضرور بھجوائیں البتہ میں نے اپنے مقالے جس کا عنوان ’آئین ، اسلام اور بنیادی حقوق‘ تھا میں اس بات کی وضاحت کی کہ ہمارے آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ  کسی بھی الزام تراشی پر بات کرنے سے قبل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تقریباً چالیس سال شعبہ قانون سے وابستگی کے باوجود آج بھی میں اپنے آپ کو قانون کا طالب علم سمجھتا ہوں۔ جہاں تک دین کا تعلق ہے تو یہ ناچیز ہمیشہ اہل علم سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

"مجھے تعجب ہے کہ آپ نے میری رہنمائی فرمانے کی بجائے یہ ضروری سمجھا کہ محض مفروضوں پر لوگوں کو اشتعال دلائیں۔ آپ کی اپنی ذاتی رائے قرآن و حدیث سے مطابقت نہیں رکھتی۔"

"مجھے نہایت دکھ اور رنج ہوا جب اس موضوع پر میری رائے لینا تو درکنار آپ نے سوچے سمجھے بغیر مجھ پر توہین اسلام کا قطعی بے بنیاد الزام لگا دیا۔ میں آپ کے لئے دعا گو ہوں کہ آپ اللہ کی کتاب اور حضرت محمد ﷺ کے احکامات سے سبق حاصل کریں جو فتنہ انگیزی سے روکتے ہیں۔"

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ہر دلیل میں قرآن اور حدیث کا حوالہ دیا اور لکھا کہ میری پروردگار سے دعا ہے کہ میری سمجھ اس کے دین کے مطابق ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ مجھے معاف کر دے۔

آخر میں انہوں نے طاہر اشرفی کے نام لکھا کہ میں آپ کے متعلق اس توقع کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر میری باتیں غلط ہیں تو آپ میری اصلاح فرمائیں۔ تاہم ساتھ ہی میں یہ مودبانہ عرض کرتا ہوں کہ کسی مسلمان پر سوچے سمجھے بغیر الزام مت لگائیں کہ وہ توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے اور ایسا عمل غیر شرعی بھی ہے۔

طاہر اشرفی کا ردعمل

دوسری جانب علامہ طاہر محمود اشرفی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جوابی خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ آپ چیف جسٹس بلوچستان کیسے بنے اور اس کے بعد آپ سپریم کورٹ کے جسٹس کیسے بنے لیکن آپ کی گذشتہ چند ماہ کے دوران گفتگو کے اقتباسات اور ذرائع ابلاغ پر آنے والے ٹکرز دیکھ کر یہ احساس ضرور ہوا کہ آپ کو ملک کے مقتدر اور معزز ترین ادارے کے رکن ہونے کے بجائے ایک سیاستدان ہونا چاہیے تھا۔

مولانا طاہر اشرفی نے لکھا کہ آئین کی سربلندی کی بات ہم نے جن حالات اور اوقات میں کی ہے وہ سب پر واضح ہے اور انتہا پسندی اور دہشت گردوں کی فکر اور سوچ کو چیلنج کرنے کے نتیجے میں سات حملے ہوئے، مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میرے موقف کو تسلیم کر لیا ہے اور اس خط میں واضح کر دیا کہ ہمارے آئین میں درج بنیادی حقوق قرآن وسنت سے مطابقت رکھتے ہیں۔

طاہر اشرفی نے لکھا کہ آپ کا جو ویڈیو کلپ میرے پاس موجود ہے وہ اس موقف سے ہٹ کر تھا۔ میرا جو آپ پر اشتعال تھا اس کی آپ نے وضاحت کر دی لہٰذا اس معاملے میں مزید بحث نہیں کرنا چاہتا۔ میری صرف ایک ہی التجا ہے کہ آپ قاضی کے منصب پر فائز ہیں، آپ کا اسم گرامی بھی قاضی سے شروع ہوتا ہے لہٰذا شریعت اسلامیہ یہ حکم دیتی ہے کہ قاضی اور مفتی پر نہ غصہ غالب آنا چاہیے اور نہ ہی خوشی، فتویٰ اور فیصلہ کے وقت نہ غصہ میں آنا چاہیے اور نہ ہی خوشی میں لہٰذا اعتدال ہم سب کو اختیار کرنا چاہیے، اسی کی آپ سے توقع کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ جب بھی کسی پر الزام یا تہمت لگانے جائیں تو پہلے ضرور تحقیق کر لیں۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ جیسے معزز جج صاحبان ہی آمروں اور جرنیلوں کو قانون کے مطابق پاکستان میں حکمرانی کا حق دیتے رہے ہیں اور آج کی قیادت کا ایک بہت بڑا طبقہ خواہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی وہ ان آمروں اور جرنیلوں کا معاون و مددگار بنتا رہا ہے اور اقتدار میں اپنا حصہ لے کر جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگاتا رہا ہے۔ اس پر طویل بحث کی جا سکتی ہے کہ پاکستان توڑنے کا اصل مجرم اور پاکستان میں مارش لاؤں کا اصل محافظ کون تھا۔ لیکن پھر یہی عرض کروں گا کہ خدارا آپ جس منصب پر ہیں اس کا تقاضا غصہ نہیں اعتدال ہے اور اگر کوئی بھی شخص اعتدال کو اختیار نہیں کر سکتا تو پھر شریعت اسلامیہ کے تقاضوں کے مطابق قاضی و مفتی کہلانے کا حقدار کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ کے خط کا بار بار مطالعہ کرنے کے بعد یہ عرض کروں گا کہ یہ خط آپ کی تحریر نہیں لگتی، جس کسی نے بھی آپ کے نام سے لکھی اس کی سرزنش ضرور فرمائیں۔