خواتین صحافیوں کے ساتھ ہراسانی: مہربخاری کا موقف وہی ہے جو تحریک انصاف کے اراکین کا

خواتین صحافیوں کے ساتھ ہراسانی: مہربخاری کا موقف وہی ہے جو تحریک انصاف کے اراکین کا
گذشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کی جانب سے جو آواز اٹھائی جا رہی تھی، اس میں بارہا یہ کہا گیا تھا کہ تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کارکنان کی جانب سے انہیں سب سے زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی خواتین صحافیوں نے اس پیٹیشن پر دستخط بھی کیے اور سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر اس حوالے سے بات کی گئی۔ ان صحافیوں نے اس حوالے سے کوئی اقدامات اٹھانے کے لئے بھی حکومتی وزرا سے ہی اپیل کی اور بارہا وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری پر اس حوالے سے اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ اس پیٹیشن کو ڈرافٹ کرنے والی صحافی جیو نیوز سے تعلق رکھنے والی بینظیر شاہ تھیں۔ انہوں نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے خصوصی طور پر کہا تھا کہ مجھے اگر کسی سے امید ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی کارروائی کریں گی تو وہ شیریں مزاری سے ہے۔ ایسا انہوں نے اسی پروگرام میں موجود تنزیلہ مظہر کے یہ بتانے کے بعد کہا کہ جب انہوں نے عاصمہ شیرازی کے خلاف آن لائن ہراسانی پر شیریں مزاری سے ملاقات کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے چیک کروایا ہے، اور ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ یہ اکاؤنٹ پی ٹی آئی کارکنان کے نہیں بلکہ عمران خان کی تصاویر لگا کے ان کے مخالفین بناتے ہیں تاکہ تحریک انصاف کی بدنامی ہو۔

اب انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے اسی سلسلے میں ہونے والے اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے عطااللہ خان صاحب نے بھی انہی خواتین صحافیوں پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تحریکِ انصاف کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ کمیٹی میں جس وقت خواتین صحافی اپنے مسائل اس حوالے سے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری اور دیگر کمیٹی ممبران کے سامنے رکھ رہی تھیں تو اس موقع پر عطااللہ خان نے کہا کہ یہ تحریک انصاف کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہراسانی معمول کی بات ہے اور صرف پی ٹی آئی کے کارکنان کو اس کا ذمہ دار کسی مذموم مقاصد کے تحت قرار دیا جا رہا ہے۔ جب انہیں خاموش کروانے کے لئے ایک کمیٹی رکن ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ مجھے کیوں خاموش کروا رہے ہیں، ان خواتین کو خاموش کروائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے آر وائے کے صحافی اقرار الحسن کے ساتھ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ صحافی وقار ستی کے مطابق انہوں نے کہا کہ شکایت کنندگان کو خاموش کروائیں، میں بولوں گا۔

یہی وہ رویہ ہے جو سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنے رہنماؤں کو اختیار کرتے دیکھتے ہیں تو یہ نیچے تک جاتا ہے۔ بجائے معاملات کو ٹھیک کرنے کے، اپنے کارکنان کو سمجھانے کے کہ خواتین صحافیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ درست نہیں ہے، عطااللہ خان صاحب انسانی حقوق کمیٹی کے ممبر ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ معمول کی بات ہے، دیگر صحافیوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے، اور یہ کہ یہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔

ذرا سوشل میڈیا پر جا کر اب تحریک انصاف کے حامیوں کے تبصرے بھی پڑھیے، آپ کو بالکل اسی قسم کا استدلال نظر آئے گا۔ کیا اقرار الحسن کے ساتھ ایسا ہونا درست ہے جو اس کی مثال دی جا رہی ہے؟ کیا یہ کوئی اچھی بات ہے کہ صحافیوں، خصوصاً خواتین صحافیوں کے ساتھ ایسا ہونا اب معمول کی بات بن چکی ہے؟ اتنی معمولی بات کہ محترم رکن اسمبلی سمجھتے ہیں کہ اس پر کمیٹی میں بات کرنا ہی غلط ہے؟ رہ گئی حکومت کے خلاف سازش کی بات، تو وہ خود بتائیں کہ کیا پاکستان کی معیشت منفی 2 تک پہنچ جانا ان صحافیوں کی وجہ سے ہے؟ کیا اس وقت سونے کی فی تولہ قیمت ایک لاکھ روپے سے اوپر اس لئے ہے کہ خواتین صحافی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں؟ ڈالر کی قیمت 168 روپے سے اوپر جا چکی ہے، پٹرول 104 روپے کو چھو رہا ہے، چینی 110 روپے فی کلو بک رہی ہے تو کیا اس میں قصور ان خواتین صحافیوں کا ہے؟ حکومت کو سازش کی ضرورت کہاں ہے؟ اور ان صحافیوں میں اتنی طاقت کہاں کہ یہ حکومت کے خلاف سازش کر سکیں؟ ان میں سے کچھ کے جنسی ہراسانی کے مقدمے کئی کئی سال سے عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں، ہوتا کچھ نہیں۔ الٹا انہی کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اور ایم این اے صاحب فرما رہے ہیں، یہ حکومت کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔

دوسری جانب اب مہر بخاری بھی سامنے آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ خواتین صحافی جو آن لائن ہراسانی سے متعلق ایک پٹیشن سامنے لائی ہیں، یہ تمام خواتین صحافیوں کی نمائندگی نہیں کر رہیں۔ اب ظاہر ہے کہ خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن ہراسانی کی بات ہو رہی ہو اور ایک خاتون صحافی کہہ رہی ہے کہ یہ خواتین سب خاتون صحافیوں کی نمائندگی نہیں کرتیں تو اس کا یقیناً یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ ان کے خیال میں یہ مسئلہ محض تحریکِ انصاف کے حامیوں کا نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان کا رویہ ایسا ہی ہے۔ ان کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ ہونا تو بالکل ممکن ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی جانب سے غلط زبان استعمال کرنا تقریباً تمام ہی جماعتوں کا مسئلہ ہے۔

مگر سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ مبشر لقمان کو انہوں نے یہ انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان خواتین کی طرف سے کہنا کہ جمہوری سوچ رکھنے والی خواتین صحافیوں کے ساتھ ایسا رویہ دیکھنے میں زیادہ آتا ہے، اس پر میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت غلط بات ہے، کیونکہ کل کو میں اٹھ کر یہ کہہ دوں کہ جو جانبدار صحافی ہیں وہ غیر جانبدار صحافیوں کو جانبدار اور خود کو جمہوری کہہ رہی ہیں تو آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔

بات تو مہر کی یہ بھی درست ہے، لیکن اچنبھے کی بات یہ ہے کہ انہیں یہ کیوں لگا کہ ان کو جانبدار یا غیر جمہوری کہا گیا ہے۔ انہیں تو چاہیے تھا کہ خود سے آگے بڑھ کر ان خواتین کی ہاں میں ہاں ملاتیں، لیکن الٹا انہوں نے ان خواتین پر ہی غیر جانبداری کا الزام لگا کر عطااللہ خان اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی بات دہرا دی۔ پھر وہ کہتی ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہیں تو ان کی مرضی، لیکن ان کی باتوں سے غیر جانبداری کہیں جھلک نہیں رہی۔