یہ 1998/99 کی بات ہے، میں 'روزنامہ دن' میں اعلیٰ عدلیہ کی رپورٹنگ کرتا تھا، جب صدر پاکستان جسٹس (ر) رفیق تارڑ نے سال پہلے لاہور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تقرر پانے والے چند نئے ججوں میں شامل جج آصف سعید کھوسہ کو مستقل نہیں کیا تو میں نے اس بارے میں ان کے والد، فوجداری کے سینئر وکیل سردار فیض محمد کھوسہ سے رابطہ کر کے ان کا ردعمل معلوم کیا۔
اگرچہ یہ میرا ان سے پہلا رابطہ تھا اور وہ بھی فون پر مگر میرے سوال کرتے ہی وہ پھٹ پڑے۔ اور جسٹس (ر) رفیق تارڑ کے بارے میں کہا کہ "یہ ہمارے ڈی جی خان میں سیشن جج لگے رہے ہیں، تب سے مجھے اور میری فیملی کو جانتے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے بچے کتنے لائق ہیں، آصف کی قابلیت کا انہیں اچھی طرح پتہ ہے مگر اس شخص نے نہ جانے کس بنیاد پر کنفرم نہیں کیا"۔
فیض کھوسہ، جن سے اگلے روز میں ہائیکورٹ کے عقبی گیٹ کے قریب، ٹرنر روڈ پر واقع ان کے لا چیمبر میں جا کے بنفس نفیس بھی ملا۔ صدر جسٹس (ر) رفیق تارڑ کی طرف سے اپنے بیٹے آصف سعید کو 'پکا/مستقل' نہ کرنے کے فیصلے پر شدید برہم تھے۔
انہوں نے میرے ساتھ طویل گفتگو میں قدرے جذباتی انداز میں کہا "کوئی بات نہیں اگر تارڑ نے آصف کو کنفرم/مستقل نہیں کیا، چلیں وہ ایک سال اور کچا جج رہ لے گا، مگر اگلے سال ضرور کنفرم ہو گا، وہ بہت قابل ہے، اس کا رستہ کوئی نہیں روک سکتا، میرا بیٹا ایک دن پاکستان کا چیف جسٹس بنے گا۔"۔
اس دور میں اعلیٰ عدلیہ، بالخصوص لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج تقرر پانے والے بعض نئے ججوں کو تو 2 سال بعد بھی محض اس بنیاد پر فارغ کیا جاتا رہا کہ انہیں پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت نے بھرتی کیا تھا یا وہ انڈیپنڈنٹ ذہن کے حامل سمجھے جاتے تھے۔
یوں ان کے بطور جج پنجاب پر قابض شریفوں کے تابعدار ثابت نہ ہونے کا شدید خطرہ تھا، ان میں ڈاکٹر خالد رانجھا جیسے فوجداری قانون کے نہایت قدآور وکلا شامل ہیں، جو پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں قانون پڑھاتے رہے۔ بعد میں اگرچہ وہ وفاق اور صوبے میں وزیر قانون کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔
بالآخر فیض کھوسہ کا بیٹا 18 جنوری 2019 کو پاکستان کا 26واں چیف جسٹس بن گیا جو 20 دسمبر کو اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں حکومت وقت کی طرف سے ایسے طعنے سنتے ہوئے رخصت ہوا کہ وہ بدمزہ ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ "پرویز مشرف کیس کے فیصلے کے بعد سے میرے اور عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم شروع کر دی گئی ہے، میری ذات اور عدلیہ کے خلاف ایک گھناؤنی سازش پر عمل جاری ہے۔"۔
انہیں یہ سب تلخ جملے کہنے پر اس وقت مجبور ہونا پڑا، جب اٹارنی جنرل کے ذریعے حکومت پاکستان اپنے "سپاس نامہ" میں بطور چیف جسٹس آف پاکستان ان کے کردار اور پروفیشنل کنڈکٹ پر نہایت سنگین الزامات سے حملہ آور ہو گئی، اور ذاتی طور پر غیر حاضر اٹارنی جنرل، ریٹائرڈ فوجی افسر انور منصور کی طرف سے بوجھل دل کے ساتھ یہ خراج تحسین پیش کرنے کے لئے لاہور سے تعلّق رکھنے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کو چنا گیا۔
یوں بطور جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کے کیرئیر کا آغاز خوشگوار رہا اور نہ ہی رخصتی، یہاں تک کہ 20 دسمبر کو جب وہ ابھی حاضر سروس جج تھے۔ ایک سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف، ایک وفاقی وزیر فواد چوہدری اور اٹارنی جنرل نے تضحیک آمیز انداز میں ان پر جانبداری اور پروفیشنل مس کنڈکٹ کے سنگین الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔
سابق آرمی چیف کے یہ سارے لیفٹیننٹ حضرات شائد آنے والے کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے 2 گھنٹے بعد ہی جسٹس کھوسہ ہی کے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان میں ریاست مدینہ کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ صحافیوں کے لئے صوبہ بھر میں صحافی کالونیوں کے نام پر کھلے عام رشوت کا اعلان کر رہا تھا۔
مگر، جانے والے نے جاتے جاتے ملک بھر کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے بھرے مجمع میں اپنے الوداعی خطاب میں اپنے کامریڈز کو فہمیدہ ریاض کی یہ حوصلہ بخش نظم 'فیض کہتے' پڑھ کر، ڈٹے رہنے کا دوٹوک پیغام دے ڈالا۔
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے
کچھ اور تو اکثر ہوتا ہے
پر تم جس لمحے میں زندہ ہو
وہ لمحہ تم سے زندہ ہے
یہ وقت نہیں پھر آئے گا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جائے گا