بین الاقوامی کانفرنسز کیوں ہوتی ہیں؟

بین الاقوامی کانفرنسز کیوں ہوتی ہیں؟
روزانہ میری نظر سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ملکی وغیر ملکی کانفرنسز کی خبریں گزرتی ہیں کہ کس شعبے میں کہاں اور کیوں کر عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، ان میں غیر ملکی مندوبین اپنے تحقیقی مقالہ جات پیش کیا کرتے ہیں۔

وہ جس فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں، اس میں روزانہ کی بنیاد پر جو ایجادات ہوتی ہیں۔ اُس کے حوالے سے پرمغز مقالے پیش کئے جاتے ہیں جس میں محققین کی شبانہ روز کی محنت شامل ہوتی ہیں۔

میں نے صحافت کے بعد ٹیچنگ کے شعبہ میں آکر دس سالوں میں درجن بھر انٹرنیشنل کانفرنسز میں شرکت کی ہیں جس میں انتظامی امور پر مامور تھا تو کہیں اپنا پیپر پیش کیا تو کبھی اپنے آرٹیکل لکھنے کی تشنگی کو دور کرنے کے لئے کانفرنسز کا وزٹ کیا کہ کچھ نیا ملے جس پر بندہ لکھ سکے کیونکہ لکھنے کے لئے سب سے بہترین چیز مشاہدات اور تجربات ہیں تو ساتھ میں نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہیں جس سے آپ بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں۔



میں جب بھی کسی نئی جگہ جاتا ہوں، اُس علاقے کے بارے میں پوری معلومات لے لیتا ہوں کہ کل کو کوئی پوچھے تو بتا سکوں کہ میں کہاں آیا تھا، کیوں آیا تھا اور کیا حاصل کرکے گیا۔

میڈیا، مینجمنٹ، سپورٹس سائنسز، اردو سمیت کیمسٹری بیالوجی اور اب مائیکروبیالوجی کی کانفرنس بھی اٹینڈ کرنے کی اللہ نے موقع فراہم کیا جس میں ہماری وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شاہانہ عروج کاظمی کا بھی بڑا ہاتھ تھا، انہوں نے ہی مجھے نے بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد جانے کا حکم دیا۔

یوں ہم فیصل آباد پہنچ گئے جہاں ویمن یونیورسٹی صوابی، کراچی یونیورسٹی اور گورنمنٹ یونوورسٹی فیصل آباد سمیت پاکستان سائنس سوسائٹی نے باہمی اشتراک سے 13ویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا موضوع اس دفعہ کورونا کی بیماری، اس کی دوائیوں کی تیاری اور دیگر تحفظات شامل تھے۔



جو کتابچہ دیکھنے کو ملا اُس میں ہر موضوع کو زیر بحث لایا گیا تھا۔ تین روزہ کانفرنس میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی پرمغز تحقیقی مقالہ جات اور ورکشاپ سے مزین یہ کانفرنس اس وبا کے دنوں میں ایک آب حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔

مگر ہمیشہ کی طرح کانفرنسز میں جا کر میں جو مشاہدہ کرتا ہوں وہ اب تک ایک ہی جیسا ہے۔ ہمارے طلبہ اور طالبات کے رویے ان تحقیقی مقالوں سے تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ ان کانفرنسز کو صرف اور صرف ایک تفریحی دورے سمجھتے ہیں جس میں وہ دوسرے شہروں سے آکر سفر کرکے دو تین دن گھر کے ماحول سے دور ایک نئی فضا میں گزار لیتے ہیں۔



تصویروں کے البم میں اضافہ ایک یاد کی شکل میں ہو جاتا ہے۔ نئی دوستیاں ہو جاتی ہیں اور جو مقصد کانفرنسز کا ہوتا ہے وہ فوت ہو جاتا ہے جس کے لئے اداروں نے اور محقیقین نے دن رات ایک کیا ہوتا ہے کہ طلبہ کو کچھ سیکھنے کو ملے مگر یہاں وہ کلچر ہی نہیں کہ بندہ نئی تحقیقات سے کچھ فائدہ اٹھائے حالانکہ یونیورسٹیاں اس مد میں لاکھوں کروڑوں خرچ کرتی ہیں مگر جو مقصد ہوتا ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتا اور پھر ایک نئی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مقالے پڑھے جاتے ہیں۔



اخباری خبریں چھپ جاتی ہیں اور پھر وہ کانفرنس ایک یاد رہ جاتی ہے۔ اگر ہم اس بات کو سوچ لیں کہ یہ سیمینار، یہ ورکشاپ، یہ ملکی اور غیر ملکی کانفرنسز کیوں ہوتی ہیں تو شاید ہم ان مواقعوں کے ایک لمحے کو بھی ضائع نہ کریں اور انہماک کے ساتھ غور سے سن کر اُن سے استفادہ حاصل کر سکیں س طرح فیصل آباد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ہونے والی کانفرنس ہے جو وبا کے حوالے سے ایک بہترین کانفرنس ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔