'پی ٹی آئی کو بلّے کے بجائے گھڑی کا انتخابی نشان دیا جا رہا ہے'

ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے کچھ ممبران یا ان سے متعلقہ کچھ لوگ یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کو 'گھڑی' کا انتخابی نشان دے دینا چاہئیے کیونکہ ان پر توشہ خانہ کا کیس چل رہا ہے اور اس کیس کا حوالہ دے کر مسلم لیگ ن کے لوگ انہیں 'گھڑی چور' کہتے ہیں۔ تو جب انہیں گھڑی کا انتخابی نشان ملے گا تو ن لیگ کے لوگ گلی گلی 'گھڑی' کا تماشہ لگائیں گے، ان کا مذاق اڑائیں گے اور عمران خان کو گھڑی چور کہیں گے۔

'پی ٹی آئی کو بلّے کے بجائے گھڑی کا انتخابی نشان دیا جا رہا ہے'

پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات کے لیے بلّے کے بجائے گھڑی کا نشان ملنے کی توقع ہے کیونکہ الیکشن کمیشن میں بعض حکام کا خیال ہے کہ توشہ خانہ ریفرنس کے پیش نظر ' گھڑی' کا انتخابی نشان دے کر پی ٹی آئی اور عمران خان کو انتخابی مہم کے دوران مزید تضحیک کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چوہدری نے بتایا کہ گذشتہ روز پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پابند کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیسز کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں پر ہر صورت آج فیصلہ سنایا جائے۔ اگرچہ یہ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو فراہم کی گئی سہولت کاری ہے تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف چلا گیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اس فیصلے کو التوا کا شکار کر دیتا اور عمران خان اپنی پارٹی کے لوگوں کو الیکشن کے لیے ٹکٹ جاری کر چکے ہوتے اور اس کے بعد انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ آتا تو پی ٹی آئی کے پاس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا موقع نہ بچتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انتخابات کے لیے الیکشن شیڈول کا اعلان تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہاتھ سے 'بلے' کا نشان بھی نکل چکا ہوتا۔ انٹرا پارٹی الیکشن معطل ہو جاتے۔ کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے ہوتے۔ یہ تمام چیزیں پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتیں۔

صحافی نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد آج الیکشن کمیشن کو فیصلہ سنانا ہو گا۔ اگر آج فیصلہ ہو گیا تو پی ٹی آئی کے پاس نئے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے 24 دسمبر تک کا وقت ہو گا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کے لیے درخواست بھی جمع کروا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اپیل کر سکتی ہے اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔

جاوید چودھری نے مزید کہا کہ اس کے باوجود بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اس موقع کا کچھ خاص فائدہ نہیں اٹھا سکے گی کیونکہ آج 'بلے' کا نشان ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے کچھ ممبران یا ان سے متعلقہ کچھ لوگ یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کو ' گھڑی' کا انتخابی نشان دے دینا چاہئیے کیونکہ ان پر توشہ خانہ کا کیس چل رہا ہے اور اس کیس کا حوالہ دے کر مسلم لیگ ن کے لوگ انہیں ' گھڑی چور' کہتے ہیں۔ تو جب انہیں گھڑی کا انتخابی نشان ملے گا تو ن لیگ کے لوگ گلی گلی ' گھڑی' کا تماشہ لگائیں گے، ان کا مذاق اڑائیں گے اور عمران خان کو گھڑی چور کہیں گے۔ اس تناظر میں یہی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی مزید کردارکشی کرنی ہے تو پی ٹی آئی کو گھڑی کا نشان الاٹ کر دیا جائے۔

صحافی نے کہا کہ بہرحال یہ پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی ہے اور اس حوالے سے عمران خان کا دن کچھ اچھا ثابت نہیں ہو گا کیونکہ شاید آج 'بلا' ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اس کے بعد یہ 'بلا' پرویز خٹک کو الاٹ ہو گا یا اکبر ایس بابر کو، اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیسز کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں پر آج فیصلہ سنائے گا جو طے کرے گا کہ پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان ملے گا یا نہیں۔

گذشتہ روز پی ٹی آئی کی درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 22 دسمبر کو مذکورہ کیسز میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب ہے کہ الیکشن کمیشن فیصلہ دے۔

دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے بلے کا نشان نہ ملنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ میڈیا سے بات چیت میں گوہر علی خان نے خبردار کیا تھا کہ بلے کا نشان نہ ملا تو تحریک انصاف کے امیدوار آزاد تصور ہوں گے اور یوں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ کھل جائے گا۔