ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے آپریشن رد الفساد کے چار سال مکمل ہونے پر پریس کانفرس سے خطاب کیا ہے۔ اس موقع پر ایک صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے بہت سی چیزیں زیرگردش ہیں اور جنرل آصف کا نام بھی آرہا ہے اور جنرل فیض کے حوالے سے بھی بات ہورہی ہے تو کیا مستقبل قریب میں اس حوالے سے کوئی امکان ہے، جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ بے بنیاد قیاس آرائیاں ہیں، اس میں کوئی صداقت نہیں، فوج میں بطور ادارہ تعیناتیاں اتنی کم مدتی نہیں ہوتی، ہر کوئی اپنی مدت پوری کرتا ہے اور عام طور پر فوج میں کسی ادارے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی 2 سال کے لیے کی جاتی ہے، میری گزارش ہوگی کہ اس طرح کی قیاس آرائیاں مزید نہ کی جائیں۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرئیاں جاری تھیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا جارہا ہے۔ جبکہ پریس کانفرنس میں دیگر معاملات پر بھی بات ہوئی۔
اس موقع پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ردالفساد صرف ایک فوجی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا اورنیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت بہت حد تک ہوچکی ہے اور کچھ شعبے ہیں ان پر کام ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادارے کی جانب سے جو کام کرنا تھا وہ ہوا ہے اور حکومت نے جو کام کرنا تھا وہ ہو رہا ہے اور جلد مکمل ہوجائے گا اور کام مثبت طرز میں ہورہا ہے اورمستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
افغانستان کے امن عمل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل وزارت خارجہ کے دائرے میں آتا ہے اس لیے تفصیلی بات نہیں کروں گا لیکن افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن ہوگا اور پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور کرے گا لیکن وہاں کے اقدامات انہوں نے خود کرنا ہے اور امریکی نئی انتظامیہ کے اقدامات سے متعلق مثبت ہیں کہ بہتری ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت ملک دشمن ایجنسیوں کی پاکستان مخالف سازشوں کو بے نقاب کیا اور خاص طور پر دہشت گردوں کی معاونت اور تربیت کے حوالے سے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھے۔