Get Alerts

آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان

آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان
پروفیسر کارولین سايج

(عرضِ مترجم: یہ مضمون پروفیسر کارولینسايج کی کتاب ”پیٹریاٹک آیت اللہ ز“ کے دوسرے باب کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں فاضل پروفیسر نے نجف کے مراجعِ اربعہ، بالخصوص دنیا بھر کےاہلِ تشیع کے مرجعِ اعلیٰ آیت اللہ سیستانی،کی جمہوری جدوجہد پر تحقیق کی ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف کی تدوین کردہ کتاب ”النصوص الصادرہ“، طبع ششم، بیروت، سنہ 2015ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

20جنوری 2003 کو، عراق پر امریکی حملے کےآغاز سے دو ماہ پہلے، بش انتظامیہ نے پینٹاگون کو عراق کی سیاسی اور معاشی تنظیمِ نو کے عمل کی نگرانی کیلئے تعمیرِ نو اور انسانی امداد کا ادارہ (او آر ایچ اے) قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس ادارے کے سربراہ جے گارنر کو بتایا گیا تھا کہ ان کی ماموریت آسان اور مختصر ہو گی۔ محکمہ دفاع کے نائب معتمد برائے حکمت عملی،ڈوگلس فیتھ نے کہا کہ نوے دن میں ایک عبوری حکومت قائم کر کے  سفارتی تعلقات بحال اور امریکی فوج کا انخلا شروع کر دیا جائے گا۔بش انتظامیہ امریکی عوام کو بتاتی رہی تھی کہ عراق پر طویل مدت کیلئے قبضہ برقرار رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیوں کہ عراقی عوام امریکی فوج کا آزاد کنندگان کی طرح استقبال کریں گے۔ خیال یہ تھا کہ صدام حسین کے بعدتعمیر نو کے امریکی منصوبوں کی کوئی مخالفت نہ ہو گی۔ اس کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عراق امریکہ کے سامنے ایک صاف تختی کی طرح ہو گا۔ شروع میں گارنر بعث پارٹی کو استحکام اور امن کو قائم رکھنے کیلئے باقی رکھنا چاہتا تھا تاکہ پہلے سے موجود ریاستی انتظامیہ کو ساتھ لے کر چلے، لیکن یہ رائے امریکی محکمہ دفاع کے سینئر عہدیداروں اور نائب صدر کے ہاں غیر مقبول تھی۔ ان اداروں میں امریکی حملے کے منصوبہ ساز بعد از صدام کی عراقی ریاست کی شکل گیری میں ان عراقیوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے تھے جنہیں صدام کے زمانے میں وطن چھوڑنا پڑا تھا۔

21اپریل 2003ء میں، جنگ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد، گارنر کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کر کے اس ادارے کو تحلیل کر دیا گیا اور 11 مئی کو نیدر لینڈ میں امریکہ کے سابق سفیر اور محکمۂ خارجہ کے سینئر افسر پال بریمر کی سربراہی میں سلطۃ الائتلاف المؤقتہ (کوالیشن پرویژنل اتھارٹی ؛سی پی اے) کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا۔ 28 جون 2004ء میں عبوری حکومت کے قیام تک سی پی اے نے عراق پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔سابقہ تارکین وطن اور دو کرد جماعتوں کے مشوروں پر چلتے ہوئے ایک وائسرائے کے انداز میں بریمر نے بہت سے مثالیت پسندی پر مبنی فیصلے کئے جو عراق کے سماجی اور سیاسی حقائق کی بابت کم علمی اور لا تعلقی کا مظہر تھے۔ فرامین میں عراقی ریاست سےبعثی اثرات کا صفایا اور عراقی فوج کے کور کمانڈرز کو منصبوں سے ہٹانا سر فہرست تھا۔ بریمر نے بعثی اثرات کے خاتمے کے عمل پرپوری لگن سے کام کیا کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں فوجی افسروں کو تنخواہوں اور مراعات سے محروم کر کے مستقبل میں سرکاری نوکریوں کیلئے نااہل قرار دیا گیا۔وہ عراقیوں کی اکثریت کی رائے معلوم کرنے کے کسی طریقہٴ کار کو وضع کئے بغیرمعیشت کے بڑے حصے کو نجی ملکیت میں دینے، اعلیٰ تعلیم کے نظام کی تنظیمِ نو اور آزاد جمہوری ریاست کے قیامکے قائل تھے۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سی پی اے کے ذیلی افسران اور پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے کندھوں پر تھی جن میں سے اکثر کے پاس اس قسم کے کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا اور ان میں سے کچھ تو محض نظریاتی طور پر بریمرسے اتفاق رکھنے کی بدولتچنے گئے تھے [1]۔

بریمرنے عراق گورننگ کونسل کو ان منصوبوں کا عراقی چہرہ قرار دیا۔ ایک ایسا ڈھانچہ جسے انہوں نے یہ سوچ کر تخلیق کیا تھا کہ اس میں عراق کے تمام نسلی اور مذہبی گروہوں کی نمائندگی ہونی چاہئیے۔ارکان کوان کی سیاسی سوچ یا پیشہ وارانہ مہارت کی بجائے گروہی تعلقات کی وجہ سے چنا گیا تھا۔ اگرچہ اس کونسل کے پاس اختیارات بہت کم تھے لیکن اس کی ترکیب نے اس روایت کی بنیاد رکھی کہ صدام کے بعد کے عراق میں آزاد جمہوریت شناخت کے خطوط پر چلے گی۔اس نظام میں ملک کی سیاسی اور انتظامی طاقت مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تفویض ہونا تھی۔

بش انتظامیہ اور میڈیا کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے مبصرین کی طرح بریمر نے بھی فرض کر لیا تھا کہ آمریت کے عادی عراقی لوگ امریکہ کا ترتیب دیا گیا تعمیرِ نو کا منصوبہ من و عن تسلیم کر لیں گے۔ اس مفروضے میں بہت خامیاں تھیں۔ اگلے پندرہ مہینوں میں جیسے جیسے بریمر نے عراق کی تشکیلِ نو کا کام آگے بڑھایا، انہیں متعدد حلقوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بریمر کیلئے شاید سب سے زیادہ تعجب آور بات آیت اللہ سیستانی کی ان منصوبوں کے خلاف شدید مزاحمت تھی، کہ جس میں باقی تین مراجع ان کے ساتھ تھے۔ جیسا کہ اپنی کتاب کے سابقہ ابواب میں دیکھا جا چکا ہے، امید یہ تھی کہ آیت اللہصاحبان صدیوں پرانی سکوت کی روش پر عمل پیرا ہو کر سیاست سے کنارہ کش رہیں گے۔ اس کے برعکس وہ نہایت دلچسپی سے سیاسی عمل کا جائزہ لیتے رہتے تھے اور جب ضروری سمجھتے مداخلت کرتے تھے۔ عام غلط فہمی کے برعکس آیت اللہصاحبانصدام کے بعد کے عراق میں عوام کے حق حاکمیت، مساوات، شفافیت اور جمہوریت کے بارے میں ہونے والی بحثوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔ [2]

اگرچہ اس باب میں ہماری توجہ آیت اللہ سیستانی پر ہو گی لیکن باقی تینوں مراجع نے جمہوری عمل کے سلسلے میں ان کے ہر اہم فتوے اور اعلامیے کی تائید کی۔ انہوں نے آیت اللہ سیستانی کےانتخابات اور جمہوری ریاست کے جواز کو قائم کرنے کے اقدام کے علاوہ 2014ء میں نوری المالکی کو تیسری بار انتخاب لڑنے سے روکنے جیسے فیصلوں کی تائید کی۔ اس باب میں آیت اللہ سیستانی پر تمرکز کرنے کا مقصد قاری کو ان کے مدبرانہ کردار کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ حوزہٴ نجف کی روح اور طرز عمل کے مرکزی نمائندے کا کردار ادا کیا، اگرچہ وہ اس میں اکیلے نہ تھے۔ اس باب کوترتیبِ زمانی کے ساتھ پیش کرنے کا مقصد قاری کو اس راستے کی سیر کرانا ہے جس پر چلتے ہوئے عراقی سیاست آیت اللہ سیستانی کے گردمتشکل ہوئی۔ یہ باب اور آیت اللہ سیستانی کا کردار قاری کو نجف اور بطور کلی عراق کی سیاسی ثقافت سے روشناس کرائےگا۔ یہ اجمالی عکاسی عراق کی جمہوریت، فرقہ بندی اور مذہبی کرداروں کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کے خاتمے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی بہترین مثال آیت اللہ سیستانی کا کام ہے۔

آیت اللہ سیستانی اور ان کے ساتھی مراجع نے سیاسی مداخلت کرتے وقت ”عراقی عوام کی مرضی“ کا پاس کیا، یہ اصطلاح وہ اکثر استعمال کرتے ہیں، اور اسی اصول کو انہوں نے عراق کے سیاسی عمل کی مشروعیت کی بنیاد قرار دیا۔ جمہوریت کے بارے میں ان کا نظریہ نہ تو مغرب سے لیا گیا تھا نہ ہی، غیر ملکی مبصرین کی رائے کے برعکس، ایران سے لیا گیا تھا، بلکہ یہ نظریۂ جمہوریت قومی وحدت، تکثر پسندی ، عوامی قبولیت، ووٹ کی تکریم اور انسانی حقوق جیسےہمہ گیر تصورات سے مالا مال تھا۔انہوں نے بڑی دقت سے فرقہ وارانہ نظامِ حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے کو درست سمت میں موڑ دیا۔ سر انجام یہ امریکی نہیں بلکہ آیت اللہصاحبان تھے جنہوں نے 2003ء کے بعد عراق کی نوزائیدہ جمہوریت کی پاسبانی کی۔

چنانچہ یہ باب آیت اللہ سیستانی کے 2003ء کے بعد کے حالات میں ظاہر ہونے والے نظریات کی لطافتوں اور باریکیوں کو نمایاں کر کے دکھاتا ہے۔ 2003ء سے 2006ء تک کے عبوری دور میں انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے بہت کام کیا کہ ریاست کی بنیاد مضبوط جمہوری اقدار اور روایات پر قائم ہو۔

ریاست میں تبدیلی کے موضوع پر تحقیق کرنے والےعقلاء کے ہاں عبوری دور میں” جمہوریت کا استحکام“ ایک نازکتصور ہے۔ اس کی فہم پر اجماع نہیں ہو سکا ہے۔ استحکام سے میری مراد یہ ہے کہ عراق میں ادارے بن گئے تھے: ایک باقاعدہ آئین لکھا گیا تھا، نئی سیاسی جماعتیں ابھر آئی تھیں، جیسے تیسے پارلیمانی سیاست شروع ہو گئی تھی، انتخابات ہوا کرتے تھے، اور قیادت میں تبدیلی آتی رہتی تھی۔ میں اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی مضبوطی یا ریاست کے بکھرنے جیسی چیزوں کے بارے میں پیشگی کوئی مفروضہ قائم نہیں کرتی۔میرا اس اصطلاح کو استعمال کرنے کا مقصد ان دو ادوار میں فرق کرنا ہے، ایک وہ عبوری دور کہ جب عراق امریکہ کے ماتحت تعمیرِ نو کے عمل سے گزر رہا تھا اور دوسرا وہ جب اقتدار عراقیوں کو منتقل کیا جا چکا تھا، اگرچہ امریکی فوج دسمبر2011ء کے بعد نکلی۔ میری تحقیق2003ء سے 2016ء کے درمیانی عرصے میں محدود ہے، اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ ریاست میں استحکام پیدا ہونے کا عمل کئی عشروں پر محیط ہوتا ہے۔مزید یہ کہ میں 2007ء سے 2009ء کے درمیان عراق میں امریکی سفیر رہنے والے ریان کروکرکے اس بیان کو سنجیدہ لیتی ہوں کہ ”ہم ان کے سیاسی نظام کی بافت میں اس طرح سلے ہوئے ہیں کہ ہمارے بغیر اس نظام کا چلنا ممکن نہ ہو گا۔“[3]

اگرچہ آیت اللہ سیستانی عراق کی سیاست کے سب سے طاقتور کردار ثابت ہوئے ہیں، لیکن جمہوریت پر ان کا پختہ ایمان اس بات کا سبب ہوا کہ وہ جمہوری عمل میں کبھی خلل نہ ڈالیں چاہے یہ ان کی آنکھوں کے سامنے ناکامیوں سے بھی دوچار ہوتا رہے.

عبوری دور کا آغاز

بریمر صاحب شروع میں یہ سوچتے تھے کہ وہ عراقیوں کی اکثریت کی پرواہ کئے بغیر تعمیرِ نو کے منصوبوں پر عمل درآمد کر لیں گے۔ اس فہم کیلئے ان کا تکیہ احمد الجلبي اور ایاد علاوی جیسے سابقہ تارکین وطن کے ساتھ ساتھ کرد رہنماؤں پر تھا کہ جو نسلی اورمسلکی بنیادوں پر طاقت کی تقسیم چاہتے تھے۔نئے نظام کی بنیاد تشخص کی سیاست پر رکھی جا رہی تھی، جس میں معاہدے اور اتحاد برابر کے شہری ہونے اور قومی منصوبوں سے لگاؤ کی بجائے فرقہ وارانہ شناخت کی بنیاد پر قائم ہونے تھے۔بریمر کے عراقی ساتھی یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ نظام سنی عرب اقلیتکی آمریت کے دوبارہ آ جانے کا خطرہ ٹال دے گا۔ لیکن ایک دفعہ یہ نظام رسمی حیثیتاختیار کر لیتا تو یہ فرقہ وارانہ نمائندگی کو بھی رواج دیتا اور مستقبل کی سیاسی ثقافت انہی سانچوں میں ڈھلتی۔

عراق کے مستقبل کیلئے عبوری دور نہایت اہم تھا، کہ جس میں نئی ریاست کے خد و خال واضح ہونے تھےاور یہ آنے والے عشروں میں ہونےو الےآئینی عمل کی آزمائش کا مرحلہ بھی تھا۔صدام کی شکست کے بعد ریاست کے پرانے اداروں کی جگہ نئے ادارے لے رہے تھے، نئی فوج اور پولیس بنانے کے ساتھ ساتھنئے سیاسی ادارے بھی قائم ہوئے۔ بریمریہ سوچ رہے تھے کہ عراق میں ادارہ سازی مکمل ہونے سے پہلے وہ فرمان جاری کر کے حکومت چلا سکتے ہیں۔ انہوں نے سی پی اے کو ملک کا نیا آئین بنانے کا اختیار سونپ دیا۔ یہ متنازع اقدام تھا کیونکہ اس کے پہلے مسودے کیقابل اعتراض چیزوں میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ وہ جماعتیں جنہوں نے امریکی حملے کی مخالفت کی تھی، الیکشن میں شمولیت کی اہل نہ ہوں گی۔ پس بریمر نے عراقیوں کی ایک مجلس بنا کر انہیں ایک قومی منشور تدوین کرنے کا اختیار دیا اور عراق کی خود مختاری کو التوا میں ڈالا۔

جونہی آئین کے بارے میں بریمرکا منصوبہ ذرائع ابلاغ میں نشر ہوا، 26 جون 2003ء کو آیت اللہ سیستانی اپنے مشہور ”جمہوری فتویٰ“ کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے۔ ان سے کچھ مقلدین نے سی پی اے کی طرف سے مجلسِآئین ساز کے ارکان کی تقرری کی بابت سوال پوچھا تھا، جن کو تمام سماجی اور سیاسی قیادتوں سے مشاورت کے بعد ایک مسودہ تیار کر کے ریفرنڈم کیلئے پیش کرنا تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے جواب میں کہا:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم

ان طاقتوں کے پاس مجلسِ آئین سازکے ارکان کی تقرری کا اختیار نہیں ہے۔اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ مجلس ایک ایسا آئین تیار کرے گی جو عراقی عوام کے مفادات کے مطابق ہو گا اور عراق کی قومی شناخت، کہ جس کا انحصار دینِ اسلام اور اعلیٰ معاشرتی اقدار پر ہے، کی ترجمانی کرے گا۔ مذکورہ منصوبہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ سب سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جانا چاہئیے تاکہ ووٹ کی اہلیت رکھنے والے ہر عراقی شہری کو یہ موقعہ ملے کہ وہ اپنی نمائندگی کیلئےتأسيسي مجلسِ آئین ساز کے رکن کا انتخاب کر سکے۔اس کے بعد تیار شدہ مسودے کو عوامی ریفرنڈم کیلئے پیش کیا جا سکتا ہے۔سب مومنین کو اس اہم مقصد پر اصرار کرنا چاہئیے اور اس کو حاصل کرنے کیلئے بہترین انداز میں کوشش کرنی چاہئیے۔ خدا سب کی بہتری اور سود مندی کی طرف رہنمائی کرے!

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مہر و دستخط

علی الحسینی السیستانی

26 جون 2003ء“ [4] [النصوص الصادرہ، صفحہ 35، 36]

اس فتوے میں آیت اللہ سیستانی نے ان مراحل کی نشاندہی کی جن سے گزر کر عراق جمہوریت سے ہمکنار ہو سکتا تھا۔ انہوں نے تقرری کے بجائے براہ راست انتخابات پر زور دیا تاکہ ”ہر عراقی“ایک متخب شدہ مجلسِ نمائندگان کیلئے رائے دینے کا مجاز ہو۔سال بھر”ایک فرد، ایک ووٹ“ کے اصول پر عام انتخابات کے اسلوب پر زور دینے کا سلسلہ جاری رہا۔

عوام کی رائے کو شامل کرنے پر آیت اللہ سیستانی کی یہ تاکید ”جمہوری فتویٰ“ دینے سے پہلے بھی موجود تھی۔ 3 مئی 2003ء کو جب ان سے ایسا ہی ایک سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا:

”عراق میں حکومت کے نظام کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ مرجع کا ملک کی حکومت اور اقتدار میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔“ (المرجعیہ لا تمارس دوراً فی السلطہ والحکم)

اور اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ شیعوں کو سی پی اے کے ساتھ تعاون کرنے کا کہیں گے، انہوں نے کہا:

”ہم ایسی حکومت بننے کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جو عراقی عوام کے ارادے کا مظہر ہو اور تمام فرقوں اور نسلوں کو شامل کرتی ہو۔“ [5](الذی نریدہ ہو ان یفسح المجال لتشکیل حکومۃ منبعثۃ من ارادۃ الشعب العراقی بجمیع طوائفہ و اعراقہ[النصوص الصادرہ، صفحہ 22، 23])

انہوں نے کسی ایک فرقےکو ترجیح نہیں دی نہ ہی شیعوں کی اس بنیاد پر طرف داری کی کہ وہ عددی اکثریت تھے۔وہ صدام حسین کے زمانے میں سنی عربوں کو باقی سب پر ترجیح دینے کے آمرانہ اقدامات کے پیش نظربہت احتیاط اور تدبر سے کام لیتے تھے۔اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے وہ یہ سمجھتے تھےکہ صدام کا ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ والا طرز عمل اب سی پی اے کی شکل میں دوبارہ مسلط کیا جا رہا تھا، جو کہ عراق پر انگریزی قبضے کی یادگار تھا۔

آیت اللہ سیستانی کے ان بیانات کاڈرامائی اثر ہوا۔ انہوں نے اہم جمہوری بیانیے کو عوامی حلقوں میں زیر بحث بنا دیا اور اکثر اوقات بریمر کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ بریمر کاہر اہم فرمان پر دستخطکرنے کا خصوصی اختیار صدام حسین کے اس مشہور قول کی یاد دلاتا تھا کہ ”اگر میں کاغذپر لکھ دوں تو وہ قانون ہو گا۔“ [6] ایک وائسرائے کے طور پر بریمر ایک دستخط کے ساتھ پرانے قوانین کو منسوخ اور نئے قوانین کا اطلاق کر سکتا تھا۔ [7]عراقی عوام آمرانہ متلون مزاجی کے عادی تھے لیکن آیت اللہ سیستانی جمہوری آئین کی پابند حکومت (مشروطہ)قائم کرنے کا عزم کر چکے تھے۔ انہیں پتا تھا کہ آمریت کے خاتمے کیلئے انہیں سیاسی رقابت اور عوامی شمولیت، سماجی ذمہداریوں،موثر انتخابات،اور نئی ریاست کی عوامی مقبولیت پر زور دینا اور ان میں التوا کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتے رہنا تھا۔

ریاست میں تحول پر تحقیق کرنے والےعقلاء کے روایتی خیال کی پیروی کرتے ہوئے بریمریہ سمجھ رہے تھے کہ جمہوریت کی طرف جانے میں انتخابات سے آغاز کرنا خطرناک ہو گا۔ بریمر کا منصوبہ ایک فری مارکیٹ والی سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم کرنا تھا۔بریمر کے اقدامات میں ریاستی کاروباروں کو عوامی ملکیت میں دینے کی تجویز بھی شامل تھی۔ انہوں نے کہا: ”اگر ہم ان کی معیشت کی اصلاح نہ کریں تو ہمارے سیاسی تحول کے منصوبے جتنے بھی اچھے ہوں، کام نہیں کریں گے۔ “ انہیں ایک فری ٹریڈ زون بنانے کا خیال بھی تھا جس سے عالمی برادری کو فائدہ ہو۔ مجوزہ نمونے میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ ایک نئی تاجر برادری کی مدد سے سرمایہ داری کی طرف حرکت ایک متوسط طبقہ پیدا کرنے کو یقینی بنائے گی۔ یہ طبقہ سیاسی اصلاحات اور جمہوریت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ انتخابات کے بجائے بازار کو اہمیت دی جا رہی تھی۔ [8]

اس عمل کے نتیجے میں، کہ جسے سیموئیل ہنٹنگٹن نے جمہوریت کی تیسری لہر کہا تھا، 1990ء کی دہائی تکدنیا میں سو کے قریب نوزائیدہجمہوریتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ ان سب میں انتخابات ہوتے تھے لیکن وہ ”آزاد جمہوریتیں“ نہیں تھیں کیوں کہ ان میں مہذبآزادیوں اور انسانی حقوق کا کما حقہ خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ فرید ذکریا جیسے نقادوں نے اس نکتے کو اٹھایا کہ انتخابات پر زور دینے سے ترقی پذیر دنیا میں ”بے روح جمہوریت“کو فروغ ملتا ہے۔ پس انتخابات کو التواء میں ڈالنا ہو گا۔یہ بیانیہ غیر سیاسی آزادیوں کا احترام کرنے والی آمریت کو ایسی جمہوریت پر فوقیت دیتا تھا جس میں مہذبآزادیوں پر قدغن لگائی جائے۔ زکریا نے آگے چل کر کہا کہ سعودی عرب کی طرح کی ریاستوں کو یکدم جمہوری بنانے کا نتیجہ ”جیفرسن کی جمہوریت“ نہیں بلکہ ”طالبان کی ملائیت“ ہو گا۔ انہوں نے عرب حکمرانوں کو آمر قرار دیا لیکن ایسے آمر جو انتخابات سے برآمد ہونے والے حکمران سے زیادہ لبرل، بردبار اور تکثر پسندتھے۔ انہوں نے خاص طور پر اس خدشے کی نشاندہی کی کہ اخوانی جماعتیں انتخابات میں شامل تو ہوں گی لیکن ان کو جمہوریت کے بغض میں ”ایک ووٹ، ایک بار“ کا نمونہ بنا کر رکھ دیں گی۔عبوری دور سے گزارنے والے معاشروں کی مثال کے طور پر انہوں نے بوسنیا کی صورت حال کو آزادیوں کی ضمانت دینے والی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جہاں ڈیٹون کے امن معاہدےکے ایک سال بعد لوگ ووٹ دینے گئے اور اس عمل کا نتیجہ نسلی تعصبات کو بڑھاوا دینے کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی تیمور اور افغانستان میں قومی ریاست کی تشکیل کو لمبے عرصے تک طول دینے کا عمل ایک بہتر نمونہ ہے۔انہوں نے عبوری دور کیلئے پانچ سال تجویز کئے جن میں سیاسی اصلاحات اور اداروں کی تعمیر کا عمل مکمل کیا جائے اور پھر قومی سطح پر کثیر الجماعتی انتخابات کرائےجائیں۔ [9] وہ عراق میں التواء کے قائل تھے، جسے مقامی آبادی اور عراق کے امور کے ماہرین مسائل کی جڑ سمجھ رہے تھے۔ زکریا کے موقف کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ مغربی دنیا میں فردی آزادیوں اور جمہوریت کے درمیان ایک مضبوط تعلق بن چکا تھا جو دنیا کے دوسرے حصوں میں وجود نہیں رکھتا تھا۔

یہ محتاط سوچ امریکی حلقوں میں عام تھی اور ریاست میں تبدیلی کے عمل کے آیت اللہ سیستانی کی خواہش کے مطابق مکمل طور پر عراقی بننے میں رکاوٹ تھی۔ مثال کے طور پر ایک سابقہ انتظامی عہدیدار نے کسی نجی بیان میں کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس کردوں اور سنی عربوں کو ویٹو کی طاقت دے کر عراق میں شیعہ ملائیت (ولایتِ مطلقہٴ فقیہ) کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا، ”یہاں جیفرسن کی جمہوریت نہیں بننے والی“ اور ”یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ عراقی لوگ (اخوانی) اسلامکی ملاوٹ کے بغیرایک آئین لکھ سکتے ہیں اور ایک جمہوریت بنا سکتے ہیں۔“ [10] پس اگرچہ علمی حلقوں میں فرید زکریا کے تصور کا بہترین انداز میں رد کیا جا چکا تھا، لیکن ہنوز مقتدر حلقوں میں اور عملی میدان میں یہ احساس حاوی تھا کہ آزادی ناکام ہو جائے گی۔ مفروضہ یہ تھا کہ عراق کی شیعہ اکثریت کو آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ ایک مذہبی سیاست دان کے پیچھے لگ کے ایک ”بے روح جمہوریت“ قائم کریں گے۔ وہ اس بات سے غافل تھے کہ وہاں طاقت کسی ایک جگہ مرکوز نہ تھی اور اگرچہ شیعوں میں مذہبی سیاسی عزائم رکھنے والی جماعتیں تھیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب ایک ہی ہدف رکھتی تھیں۔تعمیرِ نو کے سارے منصوبوں پر انسداد کی سوچ چھائی ہوئی تھی۔ اس میں شیعیت کو یکساں اور بسیطفرض کیا گیا تھا اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ شیعوں کی سب جماعتیں (اخوان المسلمین کی طرح) مذہبی عقائد کا سیاسی استعمال کرتی تھیں۔ ان خیالات کو سمجھنے کیلئے خاص احتیاطکی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ”بے روح جمہوریت“ کی بار بار دہرائی جانے والی بات کہ جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ شیعہ تحرک ”تھامس جیفرسن کی جمہوریت“ کا الٹ ہے، کئی مغالطے لئے ہوئے ہے۔

کیا عراقی عوام امریکہ دشمنی پر مبنی ایرانی نظام کو اپنا لیں گے؟ کیا وہ اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں گے؟ممکن ہے کہ بریمر کے ذہن پر یہ سوال چھائےہوں لیکن آیت اللہ سیستانی ان پر غور کرنے کو تیار نہ تھے۔ آیت اللہ سیستانی کا انتخابات کے بارے میں عقیدہ، جسے انہوں نے عوامی مقبولیت کے ساتھ بھی جوڑ دیا، ان محققین کی آراء سے ہم آہنگ تھا جو جمہوری عمل کا دوسرا رخ دیکھ رہے تھے۔مثلاً مارک پلاٹنر صاحب کا کہنا تھا کہ جمہوریت اور مہذب آزادی میں تاریخی طور پر کوئی رشتہ وجود نہیں رکھتا ہے۔ مہذب آزادیوں کے احترام کے نظریئے کی جائے پیدائش جدید انگلستان ہے کہ جس میں انیسویں صدی تک ووٹ ڈالنا ایک بڑے محدود حلقےکا حق سمجھا جاتا تھا۔ پلاٹنر صاحب جان لاک کی کتاب ”سیکنڈ ٹریٹائز آف گورنمنٹ“کوانسانی مساوات اور اکثریت کی رائے کے احترامپر زور دینے کی وجہ سے فردی آزادیوں کے احترام کی سوچ کا مصدرمانتےہیں۔پس سیاسی طاقت کا ماٴخذ آزادی اور برابری سے ہمکنار ہونے والے افراد کی رضایت ہے۔لاک کے فکری نظام میں سیاسی ڈھانچے اور طرزِ حکومت کے انتخاب میں سب کی مرضی شاملہونا ضروری ہے۔ چنانچہ مہذب آزادی کا نظریہ”عوام کی حاکمیت پر بے چوں و چرا یقین رکھتا ہے “، یہی نکتہآیت اللہ سیستانی بار بار اٹھا رہے تھے۔ [11] پلاٹنر صاحب انتخابات کی بنیاد رکھنے پر زور دیتے ہیں کیوں کہ کلی طور پر جن ممالک میں انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں وہ فردی آزادیوں کے احترام میں ان سے بہتر ہیں جن کے ہاں ایسا نہیں ہوتا، اور جن ممالک میں سماجی آزادیوں کااحترام کیا جاتا ہے ان میںانتخابات میں دھاندلی کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب جمہوری ادارے بن جائیں تو مہذب آزادی اور انتخابی جمہوریت میں ایک اٹوٹ رشتہ اور قریبی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ [12] ریاستوں کو جمہوریت کی منزل حاصل کرنے کیلئے مغرب کے راستوں پر چلنا ضروری نہیں ہے۔ پلاٹنر صاحب کو اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ کچھ خاص عبوری مراحلمیں مغربی ممالک کو ”مرحلہ وار جمہوریت“ کی حمایت کرنی چاہئیے۔ کسی اصول کے تحت بھیانتخابات پر قدغنکو قبول نہیں کیا جا سکتا اور انتخابات کے سوا حکمران کے تعین کا کوئی اور جائز طریقہ نہیں ہے۔اسی طرح اس مفروضے کی بھی کوئی بنیاد نہیں کہ اگر مسلمان معاشروں کو آیت اللہ سیستانی کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنے ادارے بنانے کی آزادی دی جائے تو وہ انسانی حقوق کے تحفظ کو ووٹ نہیں دیں گے یا شخصی آزادیوں کے تحفظ کی طاقت نہیں رکھتے ہوں گے۔ان بحثوں سے مستشرقین کے تعصب کی بو آتی ہے اور اس لب و لہجہ کی جو برطانوی استعماری دور کی پالیسی سازگرٹروڈ بیل نےاپنے باپ کے نام خط میں استعمال کیا ہے کہ اقتدار ان ”عجیب و غریب لوگوں“ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ آیت اللہ سیستانی اس قسم کے مفاہیم کے دوبارہ احیا کے خلاف ڈٹ گئے۔

2 جولائی 2003ء میں آیت اللہ سیستانی ایک بار پھر سیاسی منظر نامے پر ظاہر ہوئے اورانتخابات کے طریقۂ کارکے بارے میں ایک مفصل بیان جاری کر کے متحیر کر دیا۔جون میںجاری کئے گئے فتوے کے ضمن میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ ووٹ دینے والوں کی اہلیت اور نمائندگان کے انتخاب کے بارے میں وہ کیا کہنا چاہیں گے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ مجلسِ آئین ساز کے ارکان ”ووٹ کی اہلیت رکھنے والے عراقی شہریوںکی مرضی سے منتخب ہونے چاہئیں“ اور یہ کہ ”ووٹنگ کی شرائط و مقررات کا تعین کر کے سب پر شفاف انداز میں ایک جیسا اطلاق کیا جائے۔“ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی اسی قسم کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا اور اس بات پر تعجب کا اظہار کیاکہ ”عراق کے معاملے میں اس قسم کا بندوبست کیوں نہیں کیا جا سکتا؟“ انہوں نے واضح کیا کہ”بلا واسطہ انتخابات کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔“آئین کی اشاعت کے بعد انتخابات ہونے کا انتظار کرنا ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ ایک ایسی مجلس کے ہاتھوں لکھا گیاآئین ”جو عوام کی طرف سے منتخب نہیں کی گئی، قابلِ قبول نہیں ہو گا۔“انہوں نے کہا کہ ان کا کامتو بس ”عراقی عوام کو کسی تاخیر یالیت و لعل کے بغیر حقِ حکمرانی واپس دلوانےکا راستہ ہموار کرنا ہے ۔“ [13][النصوص الصادرہ، صفحہ 40، 41]

آیت اللہ سیستانی کے فتوے سے بریمر کے قدم لڑکھڑا گئے، اگرچہ وائسرائے کو آیت اللہ سیستانی کی غیر رسمی طاقت کا درست اندازا لگانے میں کئی ماہ اور لگے۔ 13 جولائی 2003ء میں سی پی اے نے پچیس ارکان پر مشتمل عراقی گورننگ کونسل کا اعلان کیا جسے عراقی ریاست کی تعمیرِ نو کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس میں ملک کے بڑے نسلی اور مذہبی گروہوں کی نمائندگی تھی (تیرہ شیعہ، پانچ سنی عرب، پانچ سنی کرد، ایک آشوری مسیحی اور ایک ترکمانی)۔ بعد میں تین خواتین کو بھی شامل کیا گیا۔اگرچہ اس کا مقصد عراقی عوام کی نمائندگی کرنا تھا، اس میںفرقہ وارانہ اور نسلی تنوع کی عکاسی کی گئی۔ مزید یہ فرض کیا گیا تھا کہ سیاسی نمائندگی یوں حصوں میں بٹی ہونی چاہئیے۔خلاصہ یہ کہ عراقی گورننگ کونسل دراصل عراق کے بارے میں خود عراقی عوام کے بجائے سی پی اے کے زاویۂ نگاہ کی ترجمانی کرتی تھی۔ شاید بریمر کا خیال تھا کہ اس طرح کی ”نمائندہ“ مجلس ایک مقبول بندوبست ہو گی۔ وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہوئے تھے۔ پچیس میں سے چوبیس ارکان آیت اللہ سیستانی سے ملنے نجف چلے گئے اور ہر ایک نے ان کی اس بات کو مان لیا کہ انتخابات سے پہلے کوئی عبوری آئین نہ لکھا جائے۔

آیت اللہ سیستانی اور دوسروں کے دباؤ کے نتیجے میں بریمر کو یہ ماننا پڑا کہ عراقی گورننگ کونسل محض ایک عبوری حکومت ہو گی جس کا کام موقت طور پر انتظامی معاملات کو سنبھالنا اور سی پی اے اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کے ساتھایک مشاورتی اورتعاونی کردار ادا کرنا ہو گا۔سی پی اے کے چھٹے فرمان کے مطابق سی پی اے اور عراق گورننگ کونسل کو تمام معاملات میں باہمی تعاون اور مشاورت سے چلنا تھا۔ عراقی گورننگ کونسل، جو بظاہر عراق کی آبادی کی نمائندگی کرتی تھی،نےانتخابات کے انعقاد، آئین لکھے جانے اور مستقل حکومت کے بننے تک ملک کا انتظام سنبھالنا تھا۔لیکن جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ ایسے مقبول ادارے بنانا مشکل تھا جن کی جڑیں عراقی معاشرے میں پیوست ہوں اور امریکی تسلط کے زیر سایہ ریاست سازی کا عمل مشکلات میں گھرا رہے گا، اور اس پہ طرّہ یہ کہآیت اللہ سیستانی ان مسائل پر نکتہ چینی کریں گے۔ اگرچہ رسمی طور پر طاقت بریمر کے ہاتھ میں تھی لیکن غیر رسمی سیاست ان سوالوں کے گرد گھومتی تھی۔

آیت اللہ سیستانی کی دلچسپی نئی ریاست کی عوامی مقبولیت میں تھی۔ جیسا کہ اپنی کتاب کے چوتھے باب میں میں اشارہ کر چکی ہوں، وہ سیاست کی تفصیلات سے خود کو دور رکھتے تھے، اور امریکہ، کہ جس کو ہمیشہ وہ ”قابض طاقت“ کہتے تھے، سے بھی فاصلہ قائم رکھتے تھے۔ اس عرصے میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں عراقی گورننگ کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور کیا وہ امریکہ سے مذاکرات کر رہے ہیں؟ان کے دفتر نے اس کونسل میں شرکت کے امکان کو رد کیا اور کہا کہ ”مرجع عالی اور قابض حکومت کے درمیان اس کونسل کی تشکیل یا عراق سے تعلق رکھنے والے کسی موضوع پر کوئی رابطہ نہیں ہے“ اور یہ کہ ان تک اس کونسل کے بارے میں ”کوئی معلومات نہیں پہنچائی گئیں۔“[14][النصوص الصادرہ، صفحہ 42]

دوسرے بیانات میں آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ وہ ”امریکہ کے مقاصد کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔“ [15][النصوص الصادرہ، صفحہ 33]جب بھی پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے بش انتظامیہ سے بات چیت کی ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ در حقیقت انہوں نے کبھی امریکہ کا نام استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ”قابض طاقت“ یا ”قابض حکومت“ کی اصطلاح استعمال کی۔انہوں نے کئی مواقع پر واضح کیا کہ یہ القاب ان کا فتویٰ نہیں تھے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رسمی اصطلاحات تھیں (جنہیں بریمر بھی استعمال کر چکے تھے)۔ [16][النصوص الصادرہ، صفحہ 45]وہ اکثر امریکی اقدامات پر تبصرہ کرنے یا امریکیوں کو اپنی غلطیوں کی اصلاح پر مشورہ دینے سے گریز کرتے تھے۔ وہ امریکہ کے بارے میں بہت کم بولے، اسی طرح جیسے انہوں نے مقتدیٰ الصدر یا جہادی گروہوں کو رسمی شناخت دینے سے انکار کیا تاکہ وہ اپنی حد میں رہیں۔

آیت اللہ سیستانی کی فکر میں اقوام متحدہ کا ادارہ کافی نمایاں ہے۔ (عرض مترجم: اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہبین الاقوامی امورِ حسبہ کی مدیریت کرتا ہے)۔ اپنے تمام بیانات میں آیت اللہ نے واضح کیا کہ ”عبوری دور میں عراق کے امن اور استحکام کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہے“ اور یہ کہ عراقیوں کو اپنے ملک پر ”حقِ حاکمیت“ لوٹانے کو ممکن بنانے کے مراحل پر ”نظارت“ اور ”نگرانی“ کے سلسلے میں اس ادارے کا کردار بہت اہم ہے۔ [17][النصوص الصادرہ، صفحہ 58]انہوں نے ہمیشہ تصریح کی کہ عراق میں موجود تمام افواج کو ”اقوام متحدہ کی چھتری تلے“ ہی کام کرنا چاہئیے۔ [18][النصوص الصادرہ، صفحہ 65] چونکہ سلامتی کونسل نے حملے اور قبضے کی اجازت نہیں دی تھی، لہذا آیت اللہسیستانیکیلئے اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی کہ بعد میں اقوام متحدہ نے عراق میں اپنے اہلکار بھیجے۔ جب بھی ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکی موجودگی کی تائید کرتے ہیں تو وہ کہتے”ہم کیسے قبضے کی تائید کر سکتے ہیں؟“ [19][النصوص الصادرہ، صفحہ 71] اور یہ کہ وہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں، جیسے پولینڈ، کی افواج میں ”کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔“ [20][النصوص الصادرہ، صفحہ 63] یہ سب عراق کیلئے اس وجہ سے اجنبی تھے کہ یہ ایک ایسے فوجی حملے کا حصہ بنے جسے آیت اللہ خوداور عالمی برادری ناجائز سمجھتی تھی۔ جب عراق میں جاپانی فوج کی ممکنہ آمد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آیت اللہ سیستانی نے جواب میں کہا: ”عراقی عوام اس کی آمد کو اسی صورت خوش آئند سمجھ سکتے ہیں اگر یہ عمل اقوام متحدہ کی چھتری تلے انجام دیا جائے“ اور اگر یہ ”عام انتخابات کیلئے حالات کو سازگار بناتی ہیں۔“ [21][النصوص الصادرہ، صفحہ 47] (لیکن جاپان نے بھی اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر اپنے دستے بھیجے۔) آیت اللہ نے ہمیشہ اقوام متحدہ کو قانونی اعتبارکی علامت کے طور پر پیش کیا۔

آیت اللہ سیستانی سے بار ہا عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت اور اس میں اقوام متحدہ کے کردار کے بارے میں سوال کیا گیا ۔ وہ معمولاً اس بات سے آغاز کرتے کہ روزِ اول سے ہی امریکی موجودگیناجائز تھی، جس کی وجہ سے کسی بھی دورانیے کا قبضہ جائز نہیں ہے۔ اگر ملک کے تحفظ کیلئے بیرونی افواج کی ضرورت ہے توآیت اللہ سیستانی کے نزدیک یہ کام اقوام متحدہ کے ”زیرِ سایہ“ ہونا چاہئیے۔ [22] [النصوص الصادرہ، صفحہ 65]اس کے علاوہ کوئی طریقہ جائز نہ ہو گا۔ وہ عراق میں فرانس کے کردار سے راضی تھے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے راستے سے کام کیا تھا جو ان کے مطابق ”عراقی عوام کے مفادات سے ہم آہنگ تھا۔“ [23][النصوص الصادرہ، صفحہ 65] پروفیسر جولیون ہوورث نے بھی فرانس کو اس کی عالمی معاہدے کرنے کی صلاحیت اور اقوام متحدہ کی مرکزیت پر زور دینے اور عراق پر حملے سے پہلے تفتیش کے عمل کیلئے عالمی برادری کی حمایت اکٹھی کرنے کی وجہ سے”بین الاقوامی قانون کا مدافع“ قرار دیا تھا۔ [24]

آیت اللہ سیستانی نے عراق کی بابت اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں پر بھی بہت توجہ دی۔ انہوں نے یہاستدلال قائم کیا کہ چونکہ اقوام متحدہ نے نئی عراقی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا، اسے یہاں کے سیاسی عمل پر اس وقت تک نظارت بھی کرنی چاہئیے جب تک اس کو استحکام اور عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو جائے۔ [25][النصوص الصادرہ، صفحہ 101] یہاں اور دوسرے مواقع پر ان کی زبان میں ابہام تھا لیکن ایک خاص منطق ان کے بیانات میں مشترک تھی: مشروعیت تبھی حاصل ہو گی جب سیاسی ڈھانچہ ”ہر فرقے اور نسل سے تعلق رکھنے والے عراقیوں کی منشا“ کے مطابق قائم ہو جائے گا۔ [26][النصوص الصادرہ، صفحہ 22]

عراق کی خود مختاری کی طرف سفر

نومبر 2003ءمیں سی پی اے نے عراق کی خود مختاری کی طرف حرکت کا منصوبہ پیش کیا۔15 نومبر کو جس معاہدے پر دستخط کئے گئے اس میں ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء(عبوری انتظامی دستور)کا مسودہ بھی شامل تھاجو ایک موقت قانون تھا، اور عراق کے ہر صوبے میں ایک رائے شماری کی تجویز تھی تاکہ عبوری پارلیمان بنائی جائے۔ وہ پارلیمان جون 2004ء کو عبوری حکومت کا سربراہ چنے گی۔ آیت اللہ سیستانی نے تشویش کا اظہار کیا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ معاہدے سے قبضے کے تسلسل کا تاثر ملتا تھا جس کا مطلب اسے جائز ماننا بھی تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عبوری پارلیمان انتخابات کے بجائے رائے شماری سے چنی جانی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے جون میں فتویٰ دے کر انتخابی جمہوریت کی بات تو منوا لی تھی لیکن بریمر اس فتوے میں موجود طریقہ کار پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ [27] آیت اللہ سیستانی نے کئی پیغامات میں بلا واسطہ عام انتخابات کے طریقے پر زور دیا تھا لیکن بریمر سن نہیں رہے تھے، یا یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ جو چاہیں گے کر لیں گے۔اب آیت اللہ کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ رائے شماری سے اس قسم کے افراد چنے جا سکتے ہیں جو ”قوم کے منتخب کردہ بچے “ نہ ہوں۔ انہوں نے اس اصطلاح کے ساتھ ”بیلٹ باکس“ کی اصطلاح پر زور دینا شروع کر دیا تاکہ ریاست کی تشکیل کے عمل میں سابقہ تارکین وطن کے غیر متناسب اثر و رسوخ اور ایک غیر ملکی قابض قوت کے تسلطکو نمایاں کریں۔ آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ ”یہ طریقۂ کارناجائز ہے۔“ [28][النصوص الصادرہ، صفحہ 53] مقامی جمہوریت کا بیانیہ ان کا بہترین ہتھیار ثابت ہوا۔ [29]

آیت اللہ سیستانی نے ”ایک فرد، ایک ووٹ“ کے نظام کا مطالبہ کیا جس میں اظہار رائے کا میدانوسیع تر ہو گا جو اس اہم عبوری دور کیلئے ضروری ہے۔ 27 نومبر 2003ء کو آیت اللہ سیستانی نے عوام کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں اپنا فتویٰ ایک صحافی انتھونی شدید کو دیا: ”عبوری مقننہ کے ارکان کے چناؤ کا طریقہ ایک ایسی پارلیمان کی تشکیل کو یقینی نہیں بنا سکتا جو عراقی عوام کی صحیح نمائندگی کر سکتی ہو۔“ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ طریقۂ کار کو ”ایک ایسے طریقے سے بدلنا چاہئیے جو اس کو یقینی بنائے، یعنی انتخابات!“ صرف یہی چیز ایک ایسی پارلیمان کے وجود میں آنے کییقین دہانی کرا سکتی ہے جو ”عراقی عوام کے ارادے کا مظہر ہو گی اور ان کی صحیح انداز میں نمائندگی کر سکتی ہو گی اور اسی طرح اس کی مشروعیت کا بھی تحفظ ہو گا۔“ [30][النصوص الصادرہ، صفحہ 84] اسی فتوے میں آیت اللہ سیستانی نے انتخابات میں ووٹرز کے شناختی کارڈ نہ ہونے کی صورت میں ان کے راشن کارڈ کو شناخت کیلئے استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

15 نومبر کے معاہدے پر قائم رہتے ہوئےامریکہ نے کہا کہ ایسے آزاد اور شفاف انتخابات کی تیاری کیلئے وقت کافی نہیں ہے جو 30 جون 2004ء سے پہلے اقتدار ایک عبوری عراقی حکومت کے حوالے کرنے کو ممکن بنا سکیں۔ [31] آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے رائے طلب کی۔ اقوام متحدہ، واحد بیرونی ادارہ جس کی مداخلت کوآیت اللہ سیستانی (بین الاقوامی مقننہ کے طور پر) جائز اور منصفانہسمجھتے تھے، کو دعوت دے کر انہوں نے تدبر کا مظاہرہ کیا جس نے انہیں دلیل کےمحاذ پر پیش قدمی کرنے میں واشنگٹن پر فوقیت دی۔ بریمر کو بھی معلوم تھا کہ عراق میں قومی ریاست بنانے کے عمل میں وہ اقوام متحدہ سے بے نیاز نہ تھے۔ در حقیقت عراق پر حملے کے وقت اقوام متحدہ کی مخالفت کرنے کے باوجود اب امریکہ کو اس عالمی ادارے کی طرف واپس آنا پڑا تھا، جزوی طور پر اس لئے کہ بہت سے ملک عراق میں نئی قومی ریاست بنانے کے عمل میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے بغیر شامل ہونے پر رضامند نہ تھے۔لیکن آیت اللہ سیستانی سی پی اے پر دباؤ ڈال کر یہ بات سامنے لانا چاہتے تھے کہ سی پی اے انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔ وہ مسلسل عبوری حکومت کے ناجائز ہونے اور مقامی حمایت سے محروم ہونے جیسی حقیقت کو بیانکرتے رہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنانآیت اللہ سیستانی کے نام عراقی گورننگ کونسل کے صدر عدنان پچاچی کے ہاتھوں ایک خط ارسال کر چکے تھے جس میں انہوں نے جلدی انتخابات کروانے کی مخالفت میں مشورہ دیا تھا۔ آیت اللہ کیلئے کسی تحقیقاتی کمیشن بنائے اور معاملے کو پرکھے بنا دئیے گئے مشورے کی کوئی حیثیت نہ تھی چاہے اسے اقوام متحدہ نے ہی تیار کیا ہو۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر مزید کچھ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ سی پی اے کو مجبوراً اقوام متحدہ کے وفد، جس کی قیادت لاٴخضر براہیمی کر رہے تھے،سے پوچھنا پڑا کہ عبوری حکومت کیلئے جلد انتخابات کے امکان پر اپنی رائے دیں۔ آیت اللہ سیستانی نے نہ صرف امکان کا علمی جائزہ لئے جانے کا مطالبہ کیا بلکہ وفد سے چاہا کہ ”سب پہلوؤں پر تحقیق کریں“ اور عبوری قومی کونسل میں عراقی عوام کی نمائندگی کیلئے”متبادل طریقۂ کار وضع کریں۔“ [32][النصوص الصادرہ، صفحہ 86] بریمر کو بھی انتخابات کو 30جون تک ملتوی کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی حمایت درکار تھی۔

بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے کے بعد لاٴخضر براہیمی نے نتیجہ نکالا کہ انتخابات سال 2004ء کے اواخر یا سال 2005ء کے اوائل میں ہی منعقد ہو سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی نے فیصلے کو قبول کر لیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا: ”(اقوام متحدہ کی) رپورٹ نے جامع حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کر دیا ہے جو بلا واسطہ قومی انتخابات پر مبنی ہو گی“ ۔ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ نے 15 نومبر کے معاہدے میں موجود ”اہم نقائص“ کی نشاندہی کی، اور پھر انہوں نے ان نقائص کو ایک ایک کر کے لکھ دیا۔ انہوں نے نتیجہ نکالا کہ اب عبوری حکومت کا کام عارضی قوانین بنانا رہ گیا تھا اور یہ ”غیر منتخب سرکار“ 2005ء کو ختم ہو جائے گی۔ [33][النصوص الصادرہ، صفحہ 106] انہوں نے اقوام متحدہ سے اس عمل پر نظارت کی ضمانت حاصل کر لی۔ اس بیان نے اس بات کو بھی یقینی بنا دیا کہ امریکی اقدامات کی بابت اقوام متحدہ کی تشخیص عوام میں نشر ہو جائے۔

تاہم آیت اللہ سیستانی حد سے زیادہ مخالفت نہیں کرتے تھے۔ درحقیقت انہوں نے امریکہ کے ریاست سازی کے منصوبے کو سبوتاژ نہ کر کے ایک اعتبار سے اسکی مدد بھی کی۔جس وقت انہوں نے اقوام متحدہ کی سفارشات کو منظور کیا، بصرہ میں عوام ان کے جلد انتخابات کروانے کے مطالبے کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ کئی مظاہرین نےبینروں پر ”کلا کلا امریکہ“کے نعرے لکھ رکھے تھے۔ اس اعلان سے پہلےآیت اللہ سیستانی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے امریکیوں سے کہا تھا کہ وہ مجوزہ عبوری حکومت کے خلاف ایک فتویٰ جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ البتہ امریکہ اپنے منصوبوں کو بدلنے میں تاٴمل کا شکار تھا، اس بات کو اہمیت دئیے بنا کہ جنگ کے آغاز میں آیت اللہ سیستانی کے ہی ایک فتوے نے صدام کی شکست کو تیز تر کیا تھا اور اگر آیت اللہ چاہتے تو امریکہ کی مشکلات میں اضافہ کر سکتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہکمزور عراقی حکومت امریکی مدد کے بغیر کام نہیں کر سکے گی۔ امریکی حملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے مقلدین کو قانون کی پاسداری، لڑائی اورلوٹ مار سے دوری اور جہادی تنظیموں میں شمولیتسے پرہیز کی نصیحت کی تھی۔ وہ ہمیشہ سماجی ضابطے میں رہ کر کام کرتے تھے۔

8 مارچ 2004ء کو ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء (عبوری انتظامی دستور) منظور ہوا جو نئی حکومت کے قیام تک موثر رہا اور مئی 2006ء میں بننے والے مستقل آئین نے اسکی جگہ لی۔اسے صدام کی شکست کی پہلی برسی کے موقع پر عراقی اور امریکی قیادت کی طرف سے ایک بڑی کامیابی گردانا گیا۔ یہ ایک مثالی دستاویز تھی کہ جس میں کلی نکات بیان کئے گئے تھے جو لکھنے والوں کے خیال میں مستقل آئین کے رہنما اصول بنیں گے۔ اس میں جدید ریاست کے بہت سے عناصر ترکیبی تھے، جیسے: حقوق کا بیان، فوج پر عوامی بالا دستی، احتساب کا نظام، وغیرہ۔ اس میں انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کے احترام کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔ اس میں ریاست کی مختلف شاخوں میں اختیارات کی تقسیم اور قانون کی حکومت کی تعریف بیان کی گئی تھی۔ اس میں مفاہمت کا پہلو بھی تھا: عربی کے علاوہ کردی زبان کوبھی رسمیزبان قرار دیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ کرد قومیت کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ کرد جمہوری پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے کہا کہ آئین نے کردوں کو برابر کا شہری ہونے کا احساس دلایا ہے، نہ دوسرے درجے کے شہری ہونے کا، اوراپنے لوگوں کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کردی زبان میں تقریر چھوڑ کر عربی بولنےلگے۔ [34]

اگرچہ آیت اللہ سیستانی عبوری حکومت کو ناجائز کہنے پر مصر تھے لیکن انہوں نے اپنی توجہ عبوری انتظامی دستور کی تفصیلات کی جانب مبذول کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خدشات کی جزئیات بیان کرنے لگے۔ ایک خدشہ یہ تھا کہ ”گروہی مفادات کی مداخلت“ آئینی عمل کی مقبولیت کو کم کر دے گی۔ [35](بل ان من المؤکدان المصالح الشخصیۃ والفئویۃ و العرقیۃ والحسابات الحزبیۃ والطائفیۃ ستتدخل بصورۃاو باخری فی عملیۃ الاختیار،  و یکون المجلس المشکّل فاقداً للشرعیہ[النصوص الصادرہ، صفحہ 76])مثال کے طور پر عبوری انتظامی دستور میں صدارتی شوریٰ بنائی گئی جو تین ارکان؛ ایک کرد، ایک سنی عرب اور ایک شیعہ عرب؛ پر مشتمل ہو گی۔ یہ نسلی اور مذہبی اختلاف کو نمایاں کرنے والا ڈھانچہ تھا جو عراق کو فرقہ پرست حکمرانی کی دلدل میں پھنسانے کیلئے کافی تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے تنبیہ کی کہ نسلی اور مذہبی گروہ بندی سے چپک جانے سے شوریٰ فیصلے کرنے کے قابل نہ رہے گی اور ”ملک کے اتحاد“ کو نقصان پہنچے گا۔ [36][النصوص الصادرہ، صفحہ 110]

آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور اس فرقہ وارانہ تقسیمِ اقتدار کے خلاف احتجاج کیا جسے انہوں نے تمام عراقیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا عمل قرار دیا۔ انہوں نے لاٴخضر براہیمی کے نام خط لکھا جس میں ایک ایک کر کے اپنی شکایات بیان کیں۔ اس بار ان کا لہجہ پہلے سے زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے کہا کہ عبوری انتظامی دستورپر بہت سی ”قیود“ عائد کی گئی ہیں اور شقوں کو اس پر ”تھونپا“ گیا ہے جو ”بہت خطرناک“ طرزِ عمل ہے کہ جس کا ازالہ کرنا ہو گا۔صدر کے عہدے پر(تین افراد کی) شوریٰ کو بٹھانا عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ ”رائے عامہ کے بارے کی گئی اندازہ گیری اور دستخطی مہم میں لاکھوں افراد کی شرکت“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن میں یا تو عبوری دستور کو مسترد کیا گیا ہے یا اس میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ بات کہ ”جب تک تینوں ارکان میں اتفاق نہ ہو“، جو کہ اختلاف رائے کی صورت میں بعید تھا، صدارتی شوریٰ کو کوئی قدماٹھانے کے لائق نہ چھوڑے گی۔تعطل کا لازمہ بیرونی قوت، جیسے امریکہ، کی مداخلت ہو گا۔ آیت اللہ سیستانی نے خبردار کیا کہ نسلی اور مذہبی تفریق پر مبنی نظام مستقبل میں عراق کے ”عدم استحکام، تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے“ کا سبب بنے گا۔ [37][النصوص الصادرہ، صفحہ 111 تا 113] تاہم انہوں نے عبوری انتظامی دستور کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ بظاہر اس وقت وہ مذاکرات کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے۔

آیت اللہ سیستانی نے بریمر کی اس بات میں خاص طور پر مخالفت کی کہ عراق میں آزاد اور شفاف انتخابات کیلئے 30 جون2004ء کی ڈیڈ لائن تک مناسب حالات پیدا نہیں ہو سکتے۔ آیت اللہ نے اس کے برعکس کے حق میں دلائل اکٹھے کئے۔ مثال کے طور پر صدارتی شوریٰ کی تجویز کے خلافاندازہ گیری کا عمل اور عراقی معاشرے میں گردش کرنے والی عرضداشتیں عراقی عوام کے سیاسی بلوغ کا اظہار تھیں۔ یوں آیت اللہ نے ثابت کیا کہ وہ ملکی سیاست کے رجحانات سے باخبر تھے

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔