پروفیسر فرشتہ نورائی
(نوٹ: یہ مضمون پروفیسر فرشتہ نورائی کے تحقیقی مقالےThe Constitutional Ideas of a Shi’ite Mujtahid: Muhammad Husain Na’iniکا اردو ترجمہ ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ “، طبع تہران، سنہ 1955ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)
بیسویں صدی کی ابتداء میں ایران میں اٹھنے والی تحریکِ جمہوریت میں معاشرے کے مختلف طبقات نے کردار ادا کیا تھا۔ صاحبان فکر، کاروباری حضرات اور شہری آبادی نے اس اصلاحی تحریک میں کم و بیش حصہ ڈالا۔ فطری طور پر ان کی سیاسی روش، اہداف اور مفادات مختلف تھے۔ وہ سیکولر صاحبان فکر جو مغرب کے آزاد تصورات سے متاثر تھے ایک آئین کی پابند حکومت چاہتے تھے۔ شاہی حکومت میں ایک چھوٹا اصلاح پسند گروہ بھی ان سے ہمدردی رکھتا تھا۔حقیقت میں ان دو گروہوں میں فرق کرنا مشکل ہے کیوں کہ (اس دور میں) اکثر پڑھے لکھے افراد سرکاری ملازم ہوا کرتے تھے۔ شاید بہترین مثال مرزا ملکم خان نظام الدولہ (متوفیٰ 1908ء) کی ہے جو ایک اصلاح پسند سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آزاد مفکر بھی تھے۔[1]
علمائےدین میں سے جمہوری کارکنان کے حامیوں نے قاجار شاہ کے مطلق اقتدار کو محدود کرنے کی کوشش کی اور آئین کی حکمرانی کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ وہ کسی حد تک سیکولر خیالات کے مالک تھے، لیکن ان کے بادشاہت سے اختلاف کی بنیادی وجہ سلطنت کو غصب شدہ سمجھنے کا شیعہ عقیدہ تھا۔ کاروباری طبقہ، بطور کلی آئینی جمہوریت کے حق میں تھا اور آزادی خواہوں کا ساتھ دیتا تھا، اس امید کے ساتھ کہ اصلاحات صنعت اور بنکاری کے شعبوں میں معاشی سرگرمیوں کی نئے مواقع پیدا کریں گی۔ عوام جو صدیوں سے استبداد کی چکی میں پس رہے تھے، ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو انہیں ظلم اور جبر سے نجات دے اور شخصی اور مادی تحفظ فراہم کرے۔ ان سب گروہوں میں سے جہاں ہر ایک الگ انداز میں آئینی جمہوریت کی حمایت کرتا تھا، حریت پسند اور ترقی چاہنے والے علماء کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔[2]
پارلیمانی نظام حکومت کی وکالت کرنے والے آزاد اندیش مفکرین کا کردار جانا پہچانا ہے۔ خاص طور پر جدید ترقی پسند طبقے کے قائدین میں سے ایک مرزا حسین خان سپاہ سالار، کہ جنہوں نے آزادی پسندوں کے مذہب اور اقتدار میں جدائی کے سیکولر موقف کو ان الفاظ میں بیان کیا: ”خالص دینی معاملات، جیسے نمازِ پنجگانہ، تقریبِ نکاح اور تبلیغی مجالس وغیرہ کو علماء پر چھوڑ دینا چاہئیے اور انہیں ریاستی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے۔ اسی طرح یہ بات نہایت قابل اعتراض ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان علماء دلالی کریں۔“ [3] تحریکِ جمہوریت کے دوران آزاد اندیش افراد اس سوچ کو پھیلاتے اور ذہنوں میں راسخ کرتے تھے۔ پہلی مجلس میں رشت کے نمائندے جناب وکیل التجار نے اپنے خطاب میں کہا: ”قرآن ہمارے دین کا ماخذ ہے اور آئین ریاست کے بنیادی قوانین کی وضاحت کر کے حکومت کے اختیارات کو محدود کرتا ہے اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔“ [4] تہران کے نمائندے جناب حسن علی خان نے کہا: ”آئین کا قدیم فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ [5]
جہاں تک علماء کی بات ہے تو آزادی پسند مجتہدین نے روایتی علماء سے اختلاف کیا اور آئینی جمہوریت کے مغربی فہم کے بجائے فقہی تصور پیش کیا۔ اس وقت کے مرجع اعلیٰ آیت الله محمد کاظم خراسانی (المعروف بہ آخوند خراسانی) نے کہا:
”درحقیقت آئینی جمہوریت کے اصول اسلام سے موافق ہیں۔“[6]
دوسرے مرجع آیت الله مرزا حسین تہرانی نے زور دیا کہ:
”مشروطہ (آئینی جمہوریت) کی اصطلاح جدید ہو سکتی ہے لیکن اس کا مفہوم قدیم اسلامی اصولوں سے نکلا ہے۔“[7]
عوامی تحریک کے آغاز سے ہی روشن فکر افراد اور آزادی پسند مجتہدین میں باہمی تعاون کی فضا تھی۔ تاہم جب مجلس میں آئین لکھنے کا مرحلہ آیا تو ان میں اختلافات پیدا ہوئے۔ ترقی پسند طبقہ ریاست کو مکمل سیکولر بنانا چاہتا تھا جبکہ علماء کی کوشش تھی کہ کوئی قانون ان کی مرضی کے بغیر منظور نہ ہو تاکہ وہ ایسے کسی بل کو رد کر سکیں جو فقہ سے ٹکراتا ہو۔یہ بحث پہلی مجلس میں چلتی رہی اور سارے جمہوری دور میں اسکی بازگشت سنائی دیتی تھی۔
اس مقالے میں ترقی پسند علماء کے نمائندے کے طور پر آیت الله علامہ محمد حسین نائینی (1850ء– 1936ء) کے نظریات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ اپنی طرز کی ایک اہم ترین کتاب ہے جس میں آئینی جمہوریت کی فقہی بنیادوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیت الله نائینی نے جمہوری انقلاب کی کامیابی کے چار سال بعد یہ کتاب لکھی۔ انہوں نے اس زمانے کے سیاسی علوم کا مطالعہ کیا اور جمہوری حکومت کے ابتدائی تجربات میں پیدا ہونے والے قانونی، سیاسی اور فقہی سوالات پر بھی غور کیا۔ آیت الله نائینی معروف مرجع آیت الله مرزا حسن شیرازی کے شاگرد تھے، جو 1891ء میں تمباکو کو حرام قرار دینے کا فتویٰ دینے کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔ [8] وہ 1850ء میں نائین نامی قصبے کے ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے اور روایتی مذہبی تعلیم شیعیت کے مرکز نجف میں حاصل کی جو اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ وہ دینی علوم میں پہلی صف کے عالم بنے اور ایک متبحر شیعہ مجتہد کی شہرت پائی۔ آیت الله نائینی کو 1936ء میں نجف میں اپنی وفات تک شیعہ علماء کی طرف سے نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
فارسی زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں مقدمہ، پانچ ابواب اور ایک خاتمہ ہے۔ یہ پہلی بار 1909ء میں بغداد سے شائع ہوئی اور اس کی دوسری طباعت 1910ء میں تہران سے ہوئی۔ اس کتاب کی تیسری اشاعت 1955ء میں آیت الله سید محمود طالقانی کے حاشیے کے ساتھ ہوئی، جو ایک بڑے عالم ہیں۔یہ نسخہ اس مقالے میں زیر بحث ہے۔ یہ کتاب ترقی پسند مراجع کے سیاسی اور سماجی نظریات پر کافی روشنی ڈالتی ہے اور بلا شبہ اس موضوع پر سب سے اہم دستاویز ہے۔ اس کو اُس دور کے مراجع، جیسے آخوند خراسانی اور آیت اللہ عبداللہ مازندرانی، نے بہت سراہا ہے، انہوں نے اس پر تبصرہ بھی لکھا اور اس کے متن کی تائید کی ہے۔ [9] [تنبیہ الامہ، ص 1]
آیت الله نائینی جس بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ بادشاہت کی ماہیت ہے، وہ مطلق اقتدار کو رد کرتے اورشرعی نقطۂ نگاہ سے آئین کی پابند حکومت (مشروطہ) کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا استدلال روایتی شیعہ اصولوں پر قائم ہے لیکن کچھ مقامات پر انہوں نے مغربی سیکولر نظریات کو بھی قبول کیا ہے، اور کوکبی کی ”طبائعِ استبداد“ (مطبوعہ قاہرہ، سنہ 1905ء) سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ [10] آیت الله نائینی اپنے استدلال کی بنیاد حدیث اور سنت رسولؐ و آئمہؑ پر رکھتے ہیں، لیکن وہ مغرب کے آئینی نظریات اور پڑوسی ممالک کے واقعات سے بھی آشنا ہیں، مثلاً وہ 1905ء کے روسی انقلاب کو آمریت کے خلاف ایک عوامی تحریک کی مثال قرار دیتے ہیں۔ [11] [تنبیہ الامہ، ص 65] اسی طرح وہ مسلم ممالک میں مغرب کے سیاسی نفوذ سے بھی آگاہ ہیں اور مغربی تسلط کے خلاف مزاحمت کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اپنے موضوع پر تسلط رکھتے ہوئے وہ قوی اور علمی دلائل کے ساتھ آئینی جمہوریت کی فقہی بنیادوں کو بیان کرتے ہیں۔ سیکولر آئین اور قدیم فقہ میں عدم مطابقت کو دیکھا جائے تو آیت الله نائینی کا استدلال ہمیشہ قانع نہیں کر پاتا۔ آئینی جمہوریت کا تصور جدید دور میں مغربی علوم سے ابھرا ہے۔ آمریت کو سب برائیوں کی جڑ کہہ کر ترقی پسند علماء نے ایک آئین نافذ کرنے کی فقہی توجیہ اس لئے فراہم کی تاکہ شاہ کے اختیارات کو محدود کر کے ریاست کے ظالمانہ اندازِ حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کتاب کا جائزہ ایک سیکولر تصور کی مذہبی تشریح کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مولف کے سماجی شعور کی وضاحت کے لئے بہت اہم ہے۔
آیت الله نائینی بحث کا آغاز ”حکومت“ کی کلی تعریف سے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی سماجی نظام کو اپنی بقا اور دوام کیلئے کسی نہ کسی طرز کی حکومت کی بنیاد پر قائم ہونا چاہئیے: ”چاہے وہ ایک فرد کے پاس ہو یا عوام کی امنگوں کی نمائندگی کرنے والی ایک اسمبلی کے پاس، چاہے وہ زبردستی اختیارات پر قابض ہو یا سماجی حق کے طور پر، وراثت کی بنیاد پر یا انتخابات کے ذریعے بنی ہو۔“ [12] [تنبیہ الامہ، ص 6] حکومت کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں: پہلی امت کو تعلیم فراہم کرنا اور ان کے شخصی حقوق کا تحفظ کرنا، اور دوسری دشمنوں سے وطن کا دفاع کرنا۔ [13] [تنبیہ الامہ، ص 7] حکومت کی اس کلی تعریف میں آیت الله نائینی امت اور وطن کی اصطلاحات کو متبادل کے طور پر استعمال کر کے مذہبی اور سیکولر تصورات میں ربط پیدا کرتے ہیں اگرچہ جدید وطنی ریاست کا قدیم مذہبی کتابوں میں کوئی تصور نہ تھا۔ مذہب میں برادری کی بنیاد سرحدیں نہیں بلکہ عقائد ہوتے ہیں۔ ان کی طرف سے ایسی اصطلاحات کا استعمال نئے اجتہاد کا دروازہ کھول کر مذہبی عقائد اور مغربی سیاسی علوم میں ربط پیدا کرتا ہے۔
حکومت کی ایک کلی تعریف کرنے کے بعد آیت الله نائینی اس کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں۔ ایک ظالمانہ حکومت ہے، جسے وہ استبدادیہ اور تملکیہ کہتے ہیں کہ جس میں آمر ریاست کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتا ہے اور اپنے اعمال کا حساب نہیں دیتا اور عوام کو ”مویشی“ سمجھتا ہے۔ [14] [تنبیہ الامہ، ص 8] ایسا حاکم قومی خزانے کو اپنے ذاتی رجحانات کے مطابق فضول خرچی میں ضائع کرتا ہے، من پسند لوگوں کو عہدے اور پیسہ دیتا ہے، جنہیں پسند نہیں کرتا ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیتا ہے اور عدلیہ کو جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔وہ لوگوں کا اپنے ذاتی میلانات اور خوشی کیلئےاستحصال کرنے سے بڑھ کر ان کے بارے میں کچھ نہیں سوچتا۔ سرانجام وہ اپنے آپ کو روحانی امتیاز کا حامل اورالہٰی شخصیت سمجھنے لگتا ہے۔ [15] [تنبیہ الامہ، ص 10] یہ ظالمانہ حکومت، جسے آیت الله نائینی بے بنیاد اور غیر شرعی قرار دیتے ہیں، حتمی طور پر زوال اور تباہی لے کر آتی ہے۔ وہ بنی امیہ کو ملوکیت کا بانی قرار دیتے ہیں جنہوں نے اپنے فائدے کیلئے شرعی ریاست کو عسکری ریاست میں بدل دیا۔ [16] [تنبیہ الامہ، ص 17] ان کا کہنا ہے کہ اسلام کے ابتدائی سالوں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں حکومت انصاف، منطق اور شفافیت کی بنیاد پر چلائی جاتی تھی اور مسلمان عظیم ولولے اور بہادری کے ساتھ دور دور تک اسلام کا پیغام لے کر گئے۔ اموی بادشاہت کے قیام کے بعد حکمرانوں نے عدل و انصاف کے بدلتے تقاضوں کو سمجھنا چھوڑ دیا اور حکومت اور معاشرے کے انتظام کے مسائل پر توجہ کم کر دی۔ اس انحراف نے آخر کار مسلمانوں کی طاقت کم کر دی اور قانون پر عملدرآمد مشکل بنا دیا، جس کا نتیجہ مسلمان معاشروں کی تخریب اور عوام کی بد حالی کی شکل میں نکلا۔ [17] [تنبیہ الامہ، ص 17] آیت الله نائینی اس عمومی زوال کو ایران کے حالات سے جوڑ کر کہتے ہیں: ”ظالمانہ حکمرانی، طاقت کا غلط استعمال، ناانصافی، سرکاری ملازمین کی رشوت خوری نے اس ملک کو غربت اور بدبختی میں مبتلا کر دیا ہے۔“ [18] [تنبیہ الامہ، ص 16]
دوسری قسم کی حکومت جس کی آیت الله نائینی تائید کرتے ہیں آئینی حکومت ہے، جسے وہ محدودہ، ولایتیہ، مسوٴلہ اور شورائیہ کہتے ہیں۔ [19] [تنبیہ الامہ، ص 11 – 12] اس کی طاقت عوام کی خدمت کا عزم اور شہریوں کا اس پراعتماد ہے۔ ایسی مشروط حکومت کے بارے میں آیت الله نائینی کہتے ہیں کہ سیاسی امور میں عوام براہ راست شریکِ کار ہوتے ہیں اور سماجی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں۔ حکمران ان کی نمائندگی میں امورِ ریاست کو چلاتا ہے اور عوام کا خادم سمجھا جاتا ہے۔ [20] [تنبیہ الامہ، ص 12] ایسی حکومت ولایت اور امانت کی بنیاد پر جائز ہے اور غیبتِ امامؑ میں (میسر نظاموں میں) سب سے اچھی حکومت ہے۔ اثنا عشری شیعیت کی روح امامت کا عقیدہ ہے، یعنی صرف آئمہؑ کے اقتدار کو جائز سمجھنا کہ جو حق کی حجت ہیں۔ اس کا مطلب آئمہؑ سے مودت اور ان پر ایمان ہے جو حضرت علیؑ کی اولاد میں وارثین رسولؐ ہیں اور امت کے موروثی قائدین ہیں۔ [21] نویں صدی عیسوی میں بارہویں امامؑ کی غیبت کے بعد شیعہ علماء کی طرف سے ہر حکومت غیر اسلامی سمجھی جاتی رہی ہے، اور وہ عارضی حکومتوں کی طاقت کو شرعی جواز فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ تاہم ایسی ریاست جو انصاف، نیکی، منطق اور شفافیت پر قائم ہو کو اسلامی نہیں تو عملی مجبوری کے طور پر شیعہ مرجع قبول کر سکتا ہے۔ آیت الله نائینی کہتے ہیں: ”چونکہ غیبتِ امامؑ میں ہم عدل اور علم اور تقویٰ کے منبع سے محروم ہیں، ہمیں بحالتِ مجبوری کسی اور بندوبست کی طرف دیکھنا ہے۔“ [22] [تنبیہ الامہ، ص 56] سماجی معاہدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت اگرچہ اسلامی نہیں ہے لیکن اس میں آمریت کی نسبت کم برائی ہے۔ [23] [تنبیہ الامہ، ص 41–42] اس طرح حکومت کو امامت سے الگ کر کے اور عارضی اقتدار کا راستہ ہموار کر کے آیت الله نائینی واضح کرتے ہیں کہ سماجی معاہدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کرپشن اور زوال سے مکمل طور پر پاک نہیں ہو سکتی۔ چونکہ وہ معصوم نہیں ہے، لہذا ایک اچھے حکمران کے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور مکاری سے کام لینے کا احتمال بھی موجود رہے گا۔ ایسے حالات میں برائی اور اختیارات کے غلط استعمال سے بچنے کے لئے کوئی عادل رہبر ڈھونڈنے کے بجائے اچھے ادارے قائم کرنا ہوں گے۔ لہذا اب سوال یہ نہیں کہ حکمران کون ہو، بلکہ یہ ہے کہ کس طرح ایسا سیاسی ڈھانچہ بنایا جائے جو افراد کو ناجائز کام کرنے سے روکے؟ [24] [تنبیہ الامہ، ص 42]
آیت الله نائینی ایک مستقل آئین (نظام نامہ) تدوین کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں تاکہ شہریوں کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے اور آمریت کو مہار کیا جا سکے، اور وہ قانون کے تحفظ کے لئے ایک قومی مجلسِ مشاورت قائم کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ [25] [تنبیہ الامہ، ص 15] اس اسمبلی میں مذہب کے علماء کے ساتھ ساتھ عقلاء شامل ہوں گے جو عوام کے مفادات اور آئین کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ وہ عام انتخابات کی مدد سے مقننہ میں آئیں گے۔
اگر علما سیاسی عمل میں شریک ہوئے تو مقننہ اور اس کے فیصلوں کی مذہبی حیثیت پر کوئی شک پیدا نہیں ہو گا۔ [26] [تنبیہ الامہ، ص 15] آیت الله نائینی کہتے ہیں کہ آئینی جمہوریت حقیقت میں اسلامی فقہ سے ہم آہنگ ہے کیوں کہ شریعت میں حکومت کو عدل، مساوات اور رفاہ عامہ کی بنیاد پر قائم ہونا چاہئیے۔ چنانچہ مثالی ریاست کی غیبت میں آئینی حکومت شفاف اور عادلانہ حکمرانی کے بنیادی عناصر بہم پہنچا سکتی ہے۔
وطنی آئین کے تصور کو فقہ سے ہم آہنگ کرنے کے بعد آیت الله نائینی سیاسی معاملات میں عوام کی شمولیت کو اقتدار کے ناجائز استعمال کے خلاف مزاحمت کے دینی فریضے سے جواز فراہم کرتے ہیں اور اسے سب مسلمانوں پر واجب قرار دیتے ہیں۔ اول اسلئے کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے، کہ جس پر وہ اسلامی فقہ کے اصول امر بالمعروف و نہی عن منکر کا اطلاق کرتے ہیں۔ [27] [تنبیہ الامہ، ص 49] اگر کوئی حکمران اختیارات کا غلط استعمال کر رہا ہو تو عوام پر لازم ہے کہ اسے غلط کام کرنے سے روکیں اور اسے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور کریں۔ اس کام کو مؤثر طور پر انجام دینے کا طریقہ ایک آئین تیار کر کے ایک قومی مجلس قانون ساز قائم کرنا ہے۔ [28] [تنبیہ الامہ، ص 50] دوم یہ کہ امامؑ کی غیبت میں مرجع، جو عوام کی نسبت زیادہ عالم اور پرہیز گار ہو، امورِ حسبیہ کا انتظام کرنے کا ذمہ دار ہے، جیسے اوقاف (کمیونٹی ویلفیئر) اور کم سن یتیم کی جائیداد کو سنبھالنا وغیرہ۔ چونکہ عوام کی بہبود، سماجی مفادات اور اخلاقی نظم اپنی اصل میں ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں، آیت الله نائینی کہتے ہیں کہ مرجع کو عوام کی قیادت کر کے سیاسی عمل میں مداخلت کرنی چاہئیے۔ [29] [تنبیہ الامہ، ص 51–52] سوم یہ کہ اگرچہ حکومت غصب شدہ ہے اور حاکم غاصب ہے، ایسا طریقہ وضع کیا جانا چاہ یے جس سے ریاست کے اختیارات محدود کئے جا سکیں۔ ایک مقننہ کا قیام اور علماء کی نگرانی حکومت کے استبداد میں کمی لا کراسے آئین کا پابند بنا سکتی ہے۔ [30] [تنبیہ الامہ، ص 57] ایسے میں حکمران ملک کے عاقل اور تعلیم یافتہ افراد کی مشاورت کے بغیر فیصلے نہیں کرے گا اور تمام اہم معاملات میں ان کا مشورہ قبول کرنے کا پابند ہو گا۔ [31] [تنبیہ الامہ، ص 53]
آئینی جمہوریت کا قیام تبھی ممکن ہے جب عوام اپنے حقوق اور آزادیوں سے آگاہ ہوں۔ ”فردی آزادی ہی قومی وجود کا مبداء ہے“ اور استبداد اس کا دشمن ہے۔ ”تاریخ میں ہمیشہ سب انقلابات، چاہے مسیحی دنیا میں ہوں یا غیر مسیحی دنیا میں، کا مقصد فردی آزادیوں کا حصول اور ظلم کے راج کا خاتمہ رہا ہے۔“ [32] [تنبیہ الامہ، ص 65] استبداد کی دست درازی سے شہریوں کے مفادات، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، کو بچانے کیلئے قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا ضروری ہے۔ فقہ کے دائرے میں ایک مسلمان اپنی ذات پر مکمل حق رکھتا ہے، جس میں قانون کی نظر میں مساوات اور جائیداد کی ملکیت کا حق بھی شامل ہے۔ تاہم آیت الله کے ہاں حقوق کا تصور ”فطری حقوق“ کے جدید مفہوم کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ ”آئینی حقوق“ کے معنوں میں تھا۔ (عرضِ مترجم: اقوامِ متحدہ کا فطری انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ، جس پر تمام رکن ممالک کے دستخط ہیں، آیت اللہ نائینی کی وفات کے بارہ سال بعد 1948ء میں تدوین کیا گیا۔) وہ افراد جو مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوں اور اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے ہوں، برابری کی بنیاد پر نوازے جانے تھے۔چنانچہ امیر ہوں یا غریب، خاص ہوں یا عام، سب کو شریعتِ محمدیہؐ کی رو سے برابر سمجھا جانا تھا۔ آیت الله نائینی اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ قانون کی نظر میں مساوی قرار پانے کا مقصد مسلم اور غیر مسلم عوام کو حکومت کی زیادتیوں سے بچانا ہے۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ مساوات کے اس تصور کا مطلب شریعت میں دئیے گئے خاص امتیازات کو ختم کرنا نہیں ہے۔ غیر مسلم ذمی قرار پائیں گے اور وراثت، نکاح، جرائم کی سزا اور جزیہ جیسے موضوعات پر شرعی احکام کا اطلاق ہو گا۔ [33] آیت الله نائینی کی توجیہ کے باوجود فقہ اور سیکولر آئین میں یہ تضاد اپنی جگہ باقی رہا اور آئینی تحریک کے ابتدائی سالوں میں ایران کی قومی اسمبلی کے مذہبی اور سیکولر ارکان میں بحث و تنازعہ کا سبب بنا رہا۔
تاہم قومی اسمبلی اور اس کے فرائض کے بارے میں آیت الله نائینی کے استدلال کا کمال دنیاوی اور مذہبی امور کے اداروں کو الگ الگ کرنا ہے۔ سیاسی نوعیت کے معاملات قومی اسمبلی کے سپرد کئے گئے ہیں۔ ارکان اسمبلی کو حکومت کے مختلف محکموں کی نگرانی کرنا، بجٹ بنانا، تجارتی معاملات میں اصلاح کرنا اور طاقت کے غلط استعمال کو ختم کرنا چاہئیے۔ [34] [تنبیہ الامہ، ص 90] وہ واضح کرتے ہیں کہ اسمبلی کا کام سیاسی امور کو سنبھالنا ہے اور مذہبی ذمہ داریاں، جیسے نمازِ جماعت کا قیام یا فتویٰ جاری کرنا، اسمبلی کا کام نہیں ہے۔ [35] [تنبیہ الامہ، ص89]
خاتمہ میں آیت الله نائینی استبداد کی ماہیت پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس سے مقابلے کے طریقوں پر بحث کرتے ہیں۔ وہ ظلم و جور کو سماج کی تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک استبداد کا ایک اہم ستون مذہبی شدت ہے۔ ایسے جعلی مقدس لوگ جو علمی تنقید کرنے کے بجائے عوام کو دھوکہ دینے کا کام کرتے ہیں اور شہریوں کے اعتماد کا غلط استعمال کرتے ہوئے خوف اور ڈر کی فضا قائم کر کے حکومت کے ظلم میں حصہ ڈالتے ہیں۔ مذہبی طبقے کی منافقت اور کٹر پن عوام کو جہالت میں پھنسائے رکھتا ہے۔ آیت الله نائینی تاکید کرتے ہیں کہ مذہبی اور سیاسی غنڈہ گردی میں تعلق نے مسلمانوں کو جامد پسماندگی کی دلدل میں دفن کر دیا ہے اور اس بدبختی میں مبتلا کر دیا ہے جس کے وہ آج شکار ہیں۔ [36] [تنبیہ الامہ، ص 108–109] ایک شخص کو سب اختیارات دے دینے کی روایت اور فردِ واحد کی حکمرانی بھی استبداد کے اسباب میں سے ہے۔ ایک آمر جس کا اقتدار اپنی اصل میں مطلق ہو، لامحالہ عوام کو ملنے والے کسی اختیار یا آزادی کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھے گا۔ [37] [تنبیہ الامہ، ص 109] خاتمہ میں آیت الله نائینی عوام کی جہالت، جس نے انہیں اپنے حقوق سے بے خبر رکھا ہے، کو جبر اور استبداد کے تسلسل کا سبب قرار دیتے ہیں۔ [38] [تنبیہ الامہ، ص105–107] نائینی صاحب کہتے ہیں کہ استبداد، چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، ظلم کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ وہ 1908ء میں ہونے والے سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں مخالفین نے مذہبی کٹر پن کا سہارا لے کر قومی اسمبلی کو تباہ کیا۔ [39] [تنبیہ الامہ، ص 119] ریاست کے جبر کا واحد حل عوام کو ان کے شہری حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور شہری ذمہ داریاں نبھانے کیلئے ان کو تعلیم دینا ہے۔ پارلیمنٹ کا قیام اور آئین کی تدوین حقوق و فرائض پر عملدرآمد کرنے میں عوام کی مدد کرتے ہیں۔ [40] [تنبیہ الامہ، ص 63–64]
تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ روایتی استبداد کے مقابلے میں جدت پسند علما کے کردار کی ایک اچھی مثال ہے۔ اس پر جدید مغربی تصورات کا اثر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب جدید قومی ریاست کے بارے میں مذہبی طبقے کی ترقی پسندانہ سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے، اور کلی طور پر تحریکِ جمہوریت کے دوران سامنے آنے والی اپنی نوعیت کی نہایت توانا اور محکم توضیح ہے۔ مزید یہ کہ اس کی اہمیت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ پہلی چھاپ کے بعد سے آیت الله نائینی کی یہ کتاب (اہل تشیع کے) ترقی پسند مذہبی حلقوں میں آئینی جمہوریت اور حکمران اور عوام کے حقوق کے بیان کیلئے بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے۔