ہاں یہ سچ ہے کہ 3 اپریل کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئین وقانون کی دھجیاں اڑائی گئیں جو کہ ایسا پچھلی دہائیوں میں آمر ہی کرتے آئے ہیں۔ انھیں شدید عوامی ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو آج ایک طرف یہ بھی سچ دکھائی دیتا ہے کہ اس کا کوئی عوامی ردعمل سامنے نہیں دکھائی دیا۔
سوائے کچھ نوجوانوں اور فیس بک میمز بنانے کے۔ اس بدلاؤ پر تھوڑا سوچ بچار کریں کہ عوام کیوں نہیں ردعمل دے رہی۔ ذرا سوچیں اگر یہ سیاسی کھلواڑ 70ء یا 80ء کی دہائی میں ہوتا تو اس کا عوامی ردعمل کیا ہوتا۔ واقعی اس وقت عوامی غصہ دیکھنے لائق ہوتا۔
دوستو یہ بدلاؤ ایک دن کی بات نہیں ہے۔ اسے کئی برس لگے ہیں۔ یہ پچھلے چالیس پنتالیس برسوں سے عوام کو جھوٹے وعدے، فریب، دھوکہ دہی میں پیس پیس کر ان کی روح کو بے قرار کر دیا گیا ہے۔ ان میں اب مزید کچھ سہنے کی گنجائش نہیں رہی اور وہ سب سمجھ چکے ہیں کہ یہ مفاد پرست سیاستدان، یہ دلال، یہ دھوکے باز ان کے زخم مٹا نہیں سکتے بلکہ وہ مزید اذیتیں دینے کے قائل ہیں۔
عوام جان چکے ہیں کہ یہ سارے ڈرامے باز دلال اپنے مفاد اور کرسی کے لئے ہی کر رہے ہیں اور اس پاور پولیٹکس میں عوام کیلئے کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک نام نہاد ڈیموکریسی ہے جو کہ عوام کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ چاہے وہ ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی، عوام کا دکھ درد اور مسائل، ان سیاستدانوں سے حل نہیں ہونے۔
اس کی مثال پچھلے دنوں پی ٹی آئی کا امر بالمعروف جلسہ تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 10 لاکھ لوگ لا کر اپوزیشن کو اس ٹرمپ کارڈ کے ذریعے شکست دیں گے۔ لیکن اس میں بیس ہزار آدمی بھی نہیں آ پائے تھے۔
اس کا واحد معنی یہ نکلتا ہے کہ آج بھی پاکستان میں سب سے بڑی عوامی جماعت جو موجود ہے وہ خاموش بیٹھے لوگ ہیں جو کہ ننانوے فیصد پاکستانی آبادی پر مشتمل ہیں جو چپ چاپ بیٹھے، یہ سب ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کی اکثریتی آبادی ایک ایسی حقیقی، عوامی اور نظریاتی قیادت کی انتظار میں آس لگائے بیٹھے ہیں۔ جو ان کو منزل کا راستہ دکھائے اور ان کو شعور دے۔