Get Alerts

اشرافیہ کی سخی جمہوریت کا ایک سال ”پاکستانی عوام نے کیا کھویا کیا پایا“

موجودہ جمہوریت نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کی کوشش کی ،گزشتہ مالی سال کے منظور شدہ بجٹ میں اس بات کا کوئی ذکر نہ تھا کہ پاکستان کی سویلین اشرافیہ پر یوں دل کھول کر سخاوت کی جائے گی، گزشتہ سال نومبر سے اس سال جنوری کے اختتام تک سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، بیوروکریسی، پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے

اشرافیہ کی سخی جمہوریت کا ایک سال ”پاکستانی عوام نے کیا کھویا کیا پایا“

اشرافیہ کی سخی جمہوریت کا ایک سال پورا ہو چکا ہے، اس جمہوریت نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کی کوشش کی ہے۔

8 فروری کے عام انتخابات، پاکستان کی سیاسی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات رہے، جن میں ایک سیاسی پارٹی کو نظام سے نکالنے کے لیے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے اپنا کردار ادا کیا۔ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کی، انتخابی مہم میں جتنا بھی ان کے بس میں تھا، اتنی ہی رکاوٹیں کھڑی کیں اور ان کے امیدواروں کو ایسے انتخابی نشانات الاٹ کئے کہ ووٹرز کنفیوژ رہیں۔

عام انتخابات کے روز موبائل فون نیٹ ورکس کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تاکہ ووٹرز، امیدواروں اور باقی عملے کے درمیان رابطہ منقطع رہے۔ لیکن ان سب کے باوجود، ووٹروں نے ٹھپے لگاکر بتادیا کہ ان کی کیا مرضی  ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ ایک انقلاب تھا، جسے ”سب“ نے مل کر 9 فروری کو ناکام بنایا۔ وہ دن، آج کا دن، حکومت فارم 47 کے طعنوں سے خود کو چھٹکارا نہ دلا سکی ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک سال کے اندر موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کو کندھا دیکر اوپر لانے  میں اہم کردار ادا کیا، یہ عام شہری کی معاشی قربانی کے نتیجے میں سامنے آیا، قربانی کا یہ عمل تاحال جاری ہے۔ کاروباری اشرافیہ کو وہ ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی۔ پی ٹی آئی کے احتجاجوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ ناکام بنایا گیا، اور بہت زیادہ مقبولیت کے باوجود، عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کو ایک سال کے دوران مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ آخری آسرا ٹرمپ کا تھا، وہ بھی اب ناامیدی میں بدلتا نظر آتا ہے۔

حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کی ممکنہ ”يلغار“ کو روکنے اور اپنی مرضی کے تحت چیف جسٹس اور دیگر ججز کے تقرر میں کامیابی حاصل کی۔ سروسز چیف کی ملازمت کی مدت میں اضافہ کرکے، اس نے آرمی کے چیف کی ایکسٹینشن کی ٹینشن سے بھی خود کو نکال لیا اور 2024 کے آخر میں انتہائی سخاوت سے ججز، پارلیمنٹ کے ارکان اور بیوروکریسی کی سرکاری آمدنی میں اضافہ کیا۔

اس بے رحم سخاوت کے خلاف، جنہیں آواز اٹھانی چاہیے تھی، وہ خاموش رہے ،کیونکہ  وہ خود فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ پارلیمنٹ کے میدان پر حکومت کو فارم 47 کی حکومت قرار دینے والی پی ٹی آئی بھی تنخواہوں میں اضافے کے معاملے پر حکومت کی ہم نوا رہی۔

گزشتہ مالی سال کے منظور شدہ بجٹ میں اس بات کا کوئی ذکر نہ تھا کہ پاکستان کی سویلین اشرافیہ پر یوں دل کھول کر سخاوت کی جائے گی۔ گزشتہ سال نومبر سے اس سال جنوری کے اختتام تک سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، بیوروکریسی، پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی مراعات میں 414 فیصد اضافہ کیا گیا۔ ججز کے الاؤنسز اور پنجاب اسمبلی کے نمائندوں کی ماہانہ آمدنی میں تقریباً 9 سے 10 گنا اضافہ ہوا۔ قانون و انصاف کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق، سپریم کورٹ کے ججوں کا ہاؤس رینٹ 414 فیصد اضافے کے ساتھ 68,000 روپے سے بڑھا کر 350,000 روپے کر دیا گیا، جبکہ عدالتی الاؤنس 171 فیصد اضافہ کے ساتھ 428,040 روپے سے بڑھا کر 1,161,163 روپے مقرر کیا گیا۔ ہائی کورٹ کے ججز کیلئے ہاؤس رینٹ الاؤنس 350,000 روپے مقرر کیا گیا، جبکہ عدالتی الاؤنس 1,090,000 روپے ہو گیا ہے۔

ان ہی دنوں میں پنجاب میں بڑی سخاوت کے ساتھ وزیروں، ارکانِ اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹریوں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کے ”عوامی نمائندوں کی تنخواہوں پر نظرثانی بل“ کی منظوری کے بعد، ایم پی اے کی تنخواہ 76,000 روپے سے بڑھ کر 4 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔

وزیروں اور دیگر عہدے داروں کی تنخواہوں میں سب سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پنجاب کے صوبائی وزیر کی تنخواہ 1 لاکھ روپے تھی، جو بل کی منظوری کے بعد 9 لاکھ 60 ہزار روپے ہو گئی، یعنی وزیروں کی تنخواہوں میں تقریباً 10 گنا اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف مزدور جو کہ ٹیکس ادا کر کے اس ملک کو چلا رہا ہے اسکی تنخواہ صرف اور صرف 37 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ 

اسی طرح، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، اسپیکر کی تنخواہ 1 لاکھ 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 9 لاکھ 50 ہزار روپے کر دی گئی، جبکہ ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ 1 لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔

ایک صوبائی پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ، جو پہلے 83 ہزار روپے ماہانہ تھی، اب 4 لاکھ 51 ہزار روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح، وزیر اعلیٰ کے مشیروں کی تنخواہ 1 لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔

پنجاب میں نظرثانی بل کی منظوری کے بعد وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کی تنخواہ بھی 1 لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔

یہ اضافہ  ارکان اسمبلی  اور وزراء کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر کیا گیا ہے، جبکہ انہیں ملنے والے ٹی اے، ڈی اے، مفت میڈیکل، رہائش اور دیگر سہولیات اس کے علاوہ  ہیں۔

قومی اسمبلی کے ارکان اور سینیٹرز کی بنیادی تنخواہ پہلے 150,000 روپے تھی، جس میں 38,000 روپے الاؤنس شامل کرنے سے وہ 188,000 روپے ہوتی تھی۔ اجلاس میں شرکت کی اضافی مراعات شامل کرنے کے بعد یہ رقم مجموعی طور پر 218,000 روپے ماہانہ ہوتی تھی۔
اب جب ان کی تنخواہ میں 140 فیصد اضافہ ہو چکا ہے تو الاؤنسز اور دیگر مراعات بھی اسی شرح کے مطابق بڑھیں گی۔اب قومی اسمبلی کے ہر رکن کو 5 لاکھ 19 ہزار روپے ماہانہ ملیں گے، جبکہ فضائی سفر کیلئے سالانہ 25 بزنس کلاس ٹکٹیں اس کے علاوہ ہیں۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں پر ان تنخواہوں میں اضافے سے پہلے 27 ارب 67 کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے، اب کتنے ہوں گے؟
اس بارے مکمل مراعات اور الاؤنسز کی تفصیلات آنے کے بعد ہی اندازہ ہوگا کہ عوام کو مزید کتنی ادائیگی کرنی پڑے گی۔
حالانکہ سال کے 365 دنوں میں قومی اسمبلی اوسطاً 88 دن اور سینیٹ 57 دن کام کرتی ہے۔

وفاقی کابینہ کے ارکان، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔اس کے بعد سینیٹ، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ اسمبلیوں کے ارکان کی تنخواہیں بھی بڑھیں گی۔
ججز اور بیوروکریسی کو چھوڑ کر باقی وہ لوگ ہیں جو عوام سے ووٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔یہ پالیسی ساز ہیں، فیصلے خود کرتے ہیں، اور اندھے کی طرح  ریوڑیاں اپنوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔

عوام کے نمائندوں کو اس سے بھی زیادہ ملنا چاہیے، تاکہ ان کی کارکردگی  میں اضافہ ہو،لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو عوام کیلئے بروئے کار لائیں گے یا اپنی  ذات کیلئے؟ اس حوالے سے جب عوام کے نمائندوں سے پوچھا جاتا ہے تو ان کے پاس ہنس کر ٹال  دینے کے علاوہ کوئی اور جواب نہیں ہوتا۔
یہ رویہ عوام کے اعتماد کو مکمل طور پر کمزور کر چکا ہے، عوام اور اس کے نمائندوں کے درمیان فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ متخب ایوان اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والا خلا مزید بڑھتا جارہا ہے۔

اسی طرح، نگران حکومت نے اپنے دور میں اعلیٰ بیوروکریسی یعنی منیجمنٹ پوزیشن (ایم پی) کی تنخواہوں میں 45 فیصد اضافہ کیا۔
بعد میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سال یکم  فروری کو 17 سے 22 گریڈ کے افسران کے ایگزیکٹو الاؤنس میں 150 فیصد اضافہ کرنے کی منظوری دی، اور یہ فیصلہ یکم جنوری 2023 ء سے نافذ ہوگا۔

اس "سخی جمہوریت" میں بجلی اور گیس کے بل ادا کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ گھر کا راشن لینے جائیں تو وہی اشیاء جن کی قیمتیں 6 ماہ پہلے تھیں، اب بھی وہی ہیں۔ آمدنی وہی لیکن اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ دیہی علاقوں کے بچوں میں غذائی قلت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، لیکن یہ مسئلہ اوپر بیٹھی اشرافیہ کا نہیں ہے۔

اگر عالمی بینک کی، اس سال کے آغاز میں جاری کردہ رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی عام عوام کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، سال 2024ء میں پاکستان میں مزید ایک کروڑ تیس لاکھ  شہری غربت کا شکار ہوئے ہیں۔ اگرچہ حکومت مسلسل دعوے کرتی رہی ہے کہ ان کے دور میں معیشت بہتر ہوئی ہے، لیکن عالمی بنک نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں 2023ء میں غربت کی شرح 18 فیصد سے کچھ زیادہ تھی، جو کہ سال 2024ء میں بڑھ کر تقریباً 25.3 فیصد ہو گئی ہے۔ بلاشبہ اس کی ایک وجہ خطرناک سیلاب تھا، جس نے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور زرعی پیداوار بھی کم ہو گئی، لیکن مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے غربت میں مزید اضافہ ہوا ۔

اگر پاکستان کے عام لوگوں کو یہ خبر ملے کہ ان کے ووٹ سے منتخب نمائندوں نے اپنے تمام سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپنی  تنخواہوں میں اضافہ کروا لیا ہے، تو یقیناً یہ عام لوگوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔خصوصا ان حالات میں جب عام آدمی کے مالی مسائل کم نہ ہورہے ہوں،لیکن اقتدار کے سوداگروں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ پاکستان کا عام آدمی "سخی جمہوریت" کے دائرے سے باہر بے  چارگی سے کھڑا ہے۔ اس دائرے کے اندر صرف وہی اشرافیہ موجود ہے جو اس کی مزدوری سے کمائی ہوئی رقم، بالواسطہ  ٹیکسوں کی صورت میں ہتھیا لیتی ہے ۔ جب تک عوام ان پالیسی سازوں کو عوامی اجتماعات میں ان سے اس بے رحمی کا جواب نہیں لیتے، تب تک یہ دائرہ نہیں ٹوٹے گا۔ جبکہ باقی بینفشریز تو ویسے ہی دوسری مخلوق ہیں۔ جو تمام محاسبوں سے ماورا ہیں۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔