نئے پاکستان کے دو سال: عوام نے کھویا تو خان صاحب نے بھی کچھ نہیں پایا

نئے پاکستان کے دو سال: عوام نے کھویا تو خان صاحب نے بھی کچھ نہیں پایا
میرے ایک رشتہ دار جو کہ ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں اکثر اپنی کسم پرسی کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ کے پاس تو اپنا گھر ہے گاڑیاں ہیں تندرست بیوی بچے ہیں آپ اللہ کا شکر ادا کریں۔ کہیں ایسا نا ہو کہ قدرت آپ سے یہ سب کچھ لے کر کسی ایسے شخص کو دے دے جو ان نعمتوں کی قدر جانتا ہو۔ لیکن وہ بضد رہتے ہیں اور ہر مرتبہ ان کی گفتگو کا یہی متن ہوتا ہے۔
یہی حال ہماری عوام کا ہے۔ اب سے دو سال قبل تک یہ عوام ناشکری کے ترانے گا رہی تھی۔ اور اس عوام کے پاس جو کچھ تھا یعنی 10 روپے کی روٹی، 70 ہزار کا تولہ سونا، 70 روپے کا فی لیٹر پیٹرول، 96 روپے فی کلو سی این جی، 50 روپے فی کلو چینی اور سستا آٹا یہ سب اس عوام نے ان دو سالوں میں کھو دیا اور مزید کھونے والی ہے۔
عمران خان نے ساری عمر میں جتنی عزت کمائی ہے شاید ہی کسی نے اتنی عزت کمائی ہو۔ مگر جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں تب سے روزانہ ان کی عزت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ہر وعدے سے مکر گیے اور لوگوں کے پاس جو کچھ تھا وہ اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار اکیلے خان صاحب نہیں ہیں بلکہ اصل ذمہ دار عوام خود ہے جو اپنی طاقت کو ہمیشہ غلط جگہ استعمال کرتی ہے۔ یہ عوام کسی کے لیے کھڑی نہیں ہو سکتی۔ نا اپنے لیے نا ہی کسی سیاستدان کے لیے۔ بس ٹی وی پہ یا سوشل میڈیا پہ آپ کچھ بھی ڈال دیں کسی کے بارے میں، یہاں نفرتیں محبتوں میں اور محبتیں نفرتوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ جب آج سے کچھ سال پہلے پاکستان کے وزیراعظم جو کہ اس وقت میاں محمد نواز شریف تھے کی مسلسل قومی اور بین الاقوامی سطح پر تذلیل ہو رہی تھی تب یہ قوم اپنے گھروں اور دفتروں میں جشن منایا کرتی تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے ایک  جملے کو میڈیا مغرور انداز میں چلاتا تھا کہ مرچ مسالے لگا کے اور زیادہ روپیا کمالیں۔ آج وہی میڈیا روپے روپے کو ترس رہا ہے اور وہ اینکر جن کی تنخواہوں کے چرچے ہوا کرتے تھے اب لسٹ میں کافی نیچے جا چکے ہیں۔ آج یہی قوم اس چیف جسٹس کا مذاق اور تمسخر اڑاتے ہوئے بلکل نہیں گھبرا رہی کہ کہیں توہین عدالت کا نوٹس نہ آ جائے۔ آج یہ بدحالی حکومت کی بد انتظامی کے علاوہ مکافات عمل کا بھی نتیجہ ہے۔ کیونکہ اس وقت بے عزتی نواز شریف کی نہیں ہو رہی تھی بلکہ اس ملک کے وزیراعظم کی ہو رہی تھی۔ اور حقیقت میں لوگ اپنی بے عزتی کر رہے تھے اور اوپر سے مزے بھی لے رہے تھے۔ چند ایک تحریک انصاف کے چاہنے والوں کا یہ ماننا ہے کہ خان صاحب جان بوجھ کے مصلحت سے کام لے رہے ہیں اور ایک دن وہ اچانک مقتدر حلقوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ اول تو یہ ناممکن ہے لیکن فرض کریں ایسا ہو بھی گیا تو یہ عوام خان صاحب کے ساتھ وہی کرے گی جو اب تک کے وزرائے اعظم کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔

خان صاحب بھی کتنے سادہ ہیں۔ دنیا کا ہر اپوزیشن لیڈر وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے لیکن اس کے مرتبے کی عزت کرتا ہے کیونکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ اگر اس نے اس مرتبے کی عزت نا کی تو جب بھی وہ کرسی سنبھالے گا اس کرسی میں وہ طاقت نہیں ہو گی اور اس طاقت کے خاتمے کی وجہ بھی وہ خود ہو گا۔ خان صاحب نے اس مرتبے کی اتنی تذلیل کی کہ ان کے آتے ہی ایک 30 سالہ نوجوان سیاستدان جو کہ عمر میں ان سے 35 سال چھوٹا ہے موجودہ وزیراعظم کو بھری پارلیمنٹ میں پہلے ہی دن سلکٹیڈ کہہ گیا۔ اس پارلیمنٹ میں سیاستدان کھل کے وزیراعظم پہ غلیظ الزامات لگا رہے ہیں لیکن خان صاحب آگے سے کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ مگر کیوں؟ کیونکہ انہوں نے اپنے وقت میں ساری حدیں پار کر لی تھی اور وہی شاخ کمزور کر رہے تھے جس پہ ان کو بیٹھنا تھا۔
چن چن کے اس حکومت میں نااہل لوگوں کو انتہائی اہم عہدوں پر تعنیات کیا گیا۔ عثمان بزدار کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا اور ہر سال ان کی اس تعنیاتی پہ مقرر مقرر کہا جا رہا ہے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کے گورنر ایسے لگائے کہ یونیورسٹیاں سوچ میں پڑ جاتی ہیں کہ ان کو کونووکیشن پہ بلایا جائے یا نہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کا لوکل عوام ذکر تک نہیں کرتی یعنی محمود خان کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔
میں اکثر اپنے کالم میں یہ لکھتا ہوں کہ یہ بات فوج کے اپنے فائدے میں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنا حکمران خود چن لینے دیں کیونکہ اب ہر بچے کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ اگر فوج کی مرضی نہ ہو تو کوئی حکومت میں ایک دن نہیں ٹک سکتا ۔ ایک حد تک لوگ اب تحریک انصاف اور تبدیلی کے نعروں کا مذاق اڑا کر اپنا غصہ ڈھنڈا کریں گے لیکن ایک دن ضرور آئے گا کہ لوگ سوال کرنے لگیں گے کہ کہیں جان بوجھ کر تو ایسا وزیراعظم نہیں لایا جاتا؟
لوگ اس سب کے باوجود افواج کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ لیکن جو حال میں نے لوگوں کا ان دو سالوں میں دیکھا ہے کبھی نہیں دیکھا۔ ہر آدمی پریشان۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ بھی پریشان جس کے پاس نہیں ہے وہ بھی پریشان۔ روپے کی قیمت روزبروز گر رہی ہے اور غریب تو غریب حتٰی کہ امیر بھی تیزی سے غربت کی طرف رواں دواں ہیں۔
عالمی سطح پر بھی پاکستان کے پاس کسی کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے اس بات کے کہ اللہ نے جو سرزمین ہمیں پاکستان کی صورت میں دی ہے وہ سرزمین بہت قیمتی ہے۔ اسی ایک بات کی لاج رکھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک اپنے اپنے فائدوں کے لیے ہمیں چندہ دیتے ہیں۔ اس چندے سے ہمارا ملک چلتا ہے۔کیا اس چندے سے ہم دفاع کریں گے اپنے ملک کا؟بھارت اور دیگر دشمنوں سے؟ ایک وقت آئے گا کہ بیرونی ممالک کی یہ مہربانیاں ہمارے لیے وبال جان بن جائیں گی اور بن چکی ہیں۔ سعودی عرب نے نا صرف پیسے واپس لینا شروع کر دیئے ہیں بلکہ ایک مسلمان دوست ملک ہونے کا پاس تک نہیں رکھا۔ مزید یہ کہ ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے اور کشمیریئوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے سعودی عرب ہمیں کشمیر کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے کی تنبیہ کر رہا ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے مضبوط فوج کے سربراہ کو ایک شہزادے کو منانے جانا پڑا۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ اس قوم کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ یا تو حالات سے سمجھوتا کر لیں اور ن میم و جو بھی حکومت آئے، مارشل لاء آئے بس چپ کر کے زندگی گزاریں اور جو ملے اس پہ شکر کریں۔ اور یا ایک مرتبہ اپنے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس طرح نہیں کہ لاہور والے کو پشاور والوں کی اور پشاور والوں کو کراچی والوں کی فکر نا ہو۔ جب تک سارے کونے مضبوط نہیں ہوتے کوئی سکھی نہیں رہ سکے گا، خصوصاً اب جبکہ ایک افراتفری کا سا ماحول ہے۔ لیکن جو بھی ہو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔