ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور معاشرتی ہیجان: 'عوام کا ترجمان بننے کا دعویدار میڈیا اصل میں اشرافیہ کا خدمت گزار ہے'

ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور معاشرتی ہیجان: 'عوام کا ترجمان بننے کا دعویدار میڈیا اصل میں اشرافیہ کا خدمت گزار ہے'
محمد سعید آختر

گزری دہائی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں واقعات سے بھر پور دہائی کے طور پہ یاد رکھی جاۓ گی۔  دو منتخب حکومتوں نے اپنی حکومتی مدت پوری کی۔ یہ بھی حقیقت رہی کہ دونوں حکومتی جماعتیں کو دوران حکومت دشوار راستوں پہ اپنا سفر طے کرنا پڑا۔ ان پر ماضی میں کی گئی غلطیوں کا بوجھ بھی تھا۔  نوے کی دھائی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پہ عدم اعتماد ، ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا اور ملک کی مستقل قائم طاقت کے گن گانا جیسے سیاسی اعمال کے رو پذیر ہونے کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔
جب گذشتہ دنوں میں پاکستان کے سیاسی افق پہ ہونے والے واقعات پر نظر رکھنے والے دوستوں سے پاکستان میں نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت پہ بات کر رہا تھا تو سب نے یک زباں ہوے کہا کہ وہ تو ہو چکا اور اٹھارویں آئینی ترمیم اس کا واضح ثبوت ہے۔  اٹھارویں آئینی ترمیم بظاہر سیاست کے ٹھہرے پانی میں ارتعاش تھا۔
لیکن سیاسی میدان میں ان کامیابیوں کے با وجود الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے لوگوں میں ملک میں جاری سیاسی عمل سے بیزاری پیدا کی گئی اور یوں ہمارا الیکٹرانک میڈیا جھوٹ کو ہوا دینے لگا۔ اس طرح لوگوں کی حقیقی سیاسی مرضی کو جھوٹی خبروں سے گدلا کر لوگوں کو نئے قبائلی نظام کے تابع کر دیا گیا۔  جس کا اصول ہے ' یا تو تم ہمارے ساتھ ہو اور ہم سے متفق ہو یا پھر تمہاری سیاسی راۓ کی کوئی وقعت نہیں۔
ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے اس کردار کو سمجھنے کیلئے پاکستان کی موجودہ سیاسی تاریخ کے  دو واقعات  تحقیق کرنے والوں کیلئے اہم ہیں۔ اور تحقیق کا نتیجہ یہ ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کے ذہنوں میں صرف الجھنیں ہی پیدا کی ہیں۔
لال مسجد کے ہنگاموں کو ہم نے براہ راست دیکھا کہ جب مدرسے کے طالب علم ہاتھوں میں ڈنڈے لئے ہمارے دارالخلافہ کی سڑکوں پہ دندناتے پھر رھے تھے۔ اور یہ سب مناظر پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی براہ راست دیکھے جا رہے تھے۔
فساد کے شروع میں ٹی وی اینکروں کی بڑی تعداد واویلا کر رہی تھی کہ بھر پور قانونی حکمت عملی اختیار کرتے ہوۓ ہنگامے سے نبٹا جاۓ۔  اور جب ایکشن لیا گیا تو سب ٹی وی پہ لیئے گئے ایکشن کو طاقت کا ناجائز استعمال کہہ کر آہ و فغاں کرنے لگے۔ کچھ اینکروں کے تو آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔
نام نہاد وکلا تحریک کے دوران جسٹس افتخار چودھری کو آزادی اور قانون کی حکمرانی کے  نمائندے کے طور پہ پیش کیا گیا۔ اپنی ٹوپیوں میں فتح کے پر سجائے کچھ اینکروں اور وکلا نے بعد میں کافی مالی فوائد بھی حاصل کیۓ۔
جب جسٹس چودھری بحال ہوئے تو انہوں نے متوازی حکومت کی بنیاد ڈال دی اور دوسرے لفظوں وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو بن بیھٹے۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسے فعل کو غیر قانونی قرار دیا جاتا۔ لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے تو اسے قوم کا نجات دہندہ بنا دیا تھا۔
یہ دو واقعات ہمیں اس نتیجے پہ پہچنے میں مدد دیتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈ یا معاشرے میں دبے طبقات کی معاشرتی حالت سدھارنے کے بلند باگ دعووں کے باوجود معاشرے میں نظام کہنہ کو مظبوط و مربوط کرنے میں ممد و معاون ہے۔
الیکٹرانک میڈیا معاشی 'ہٹ مین' کا بھی کردار ادا کرنے لگا۔ کچھ ٹی وی صحافیوں کو کچھ نادیدہ ہاتھ  سرکاری اہلکاروں کے نام نہاد سکینڈل کی   دفتری فائلیں تھما دیتے ہیں۔ وہ فائلیں نا مکمل پروجیکٹ کی ہوتی ہیں جن پہ افسر شاہی پروجیکٹ کی افادیت پہ غور و خوص کر رہی ہوتی ہے ۔ میڈیا اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں الجھن پیدا کرتا ہے کہ صرف اور صرف ہماراحکومتی نظام ،ایک ادارے کے علاوہ، معاشرے کے بگاڑ کا سبب ہے۔ حال ہی میں آپ نے الیکٹرانک میڈیا کی ایک بڑی شخصیت ، (جس نے اسلام آباد کے سیکٹر آئی 20 کے نا مکمل  ہاوُسنگ پروجیکٹ  پر شور و غل ڈالا تھا) کی ہاوُسنگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھی ہوگی کہ جس کے بعد مایہ ناز اینکر ذاتیات پہ اتر آۓ۔
اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ رویہ گورننس کو تہہ و بالا کر دیتا ہے ، اس طرح لوگ ، جو حکومت کرنے کے آسمانی حق کو یکسر مسترد کرتے ہوۓ اپنے حکومت کرنے کے حق سے رضاکارانہ دستبردار ہوتے ہیں ( اگر  آپ حکومتوں کے بننے سے متعلق سوشل کنٹریکٹ کے نظریات کو مانتے ہیں) معاشرتی لا قانونیت کو  ایک سیاسی  حربہ سمجھتے ہیں۔
اب آئیے جھوٹی خبروں کی جانب۔ جھوٹی خبریں جان بوجھ کے لوگوں کو گمراہ کرنے  اور دھوکہ دینے کیلئے گھڑی جاتی ھیں۔ ۔ اینکرز ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔ اور یہ بات ہمارے معاشرے میں نئے قبائلی نظام کی عکاسی کرتی ہے۔
لوگوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ انہیں صحیح معلومات دی جائیں لیکن اس حق کی ہمارے الیکٹرانک میڈیا پہ نفی کی جاتی ہے۔ لوگ آپ پہ اعتماد کرتے ہیں اور ان کے اعتماد کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں۔
ہمارا غیر ذمہ دار میڈیا لوگوں میں ریاست پہ بے یقینی پیدا کر رہا ہے۔ اور یہ ہمارےہاں نہ سنبھلنے والے معاشرتی ہیجان کا سبب ہوگا۔
کیا الیکٹرانک میڈیا  کے ذمہ دار اس بات پہ غور کرنے کیلئے مل بیھٹیں گے کہ انہوں نے معاشرے کا کیا حشر کر دیا؟