قرآن کی تلاوت اللہ سے مخاطب ہونا ہے۔اللہ کے احکامات اور فرمودات کو یاد کرنا ہے۔اللہ کی قربت حاصل کرنا ہے۔مگر یہ تبھی ممکن جب آپ کو سمجھ آرہی ہو کہ تلاوت کردہ آیات میں اللہ کیا کہہ رہا ہے۔تلاوت کی حقیقی افادیت اور تقدس تب ہی اجاگر ہوسکتا ہے
جب قرآن کی تلاوت کرنے والا یہ سمجھ سکے کہ جن آیات کی تلاوت کی جارہی ہے۔ان میں قرآن کیا کہہ رہا ہے۔قرآن بنی نوح انسان کی ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے۔ صرف ثواب حاصل کرنے کیلئے نہیں ہے۔کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عربی میں رٹا لگا کر پڑھنے سے آپ نے قرآن کا حق ادا کر دیا ہے؟
قرآن کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ اسے سمجھے اور اس پر عمل کرے۔آپ قرآن صرف اپنی مادری زبان میں ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اس زبان میں جس میں آپ خواب دیکھتے ہیں اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں اپنے گھروں میں بولتے ہیں۔
قرآن کے اردو میں لاتعداد تراجم ہو چکے ہیں۔ آپ کوئی سا بھی ترجمہ پڑھ لیں جو عربی گرائمر کے معیار کے مطابق ہو۔ مگر صرف ترجمہ پڑھیں تفسیر نہیں کیونکہ تفسیر لکھنے والے کے اپنےخیالات بھی ہو سکتے ہیں۔قرآن کے لفظی ترجمہ میں کوئی بندہ ڈنڈی نہیں مار سکتا اور جتنی بھی کوشش کرے اس میں زیادہ بڑافرق نہیں ڈال سکتا۔ آپ ترجمہ بار بار پڑھیں اور سنیں۔ جب آپ کو قرآن کی سمجھ آ جائے گی تو آپ فرقوں سے باہر نکل جائیں گے۔
قرآن کی اہمیت و افادیت ،نزول قرآن کا مقصد اور صاحب قرآن کی آمد اور نبی کریمﷺ کی سعی مبارکہ کا ادراک بہتر طریقے سے قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے سے ممکن ہوگا۔بڑی واضح اور حقیقت برمبنی دلیل ہے کہ حضورپاک ﷺ نے عبادات کےلئے پتھر کھائے اور اپنے دندان مبارک شہید نہیں کروائے تھے۔
مقصود قوانین الہیہ کے مطابق استحصال سےپاک انسانی مساوات قائم کرکے حکومت الہیہ کا قیام تھا۔جس کےلئے بڑی جنگیں بھی کرناپڑی اور آپ ﷺ نے شدید مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا بھی کیا۔سرزمین عرب کے ساہوکار،سرمایہ دار اور اشرافیہ نبی کریم ﷺ کو نعوذبااللہ جادو گر اور دیوانہ قرار دیتے کہ یہ غلاموں کو آزاد کرنے اور غلاموں کی خرید وفروخت کی مخالفت کرتا ہے ۔
دین اسلام کاکماحقہ فہم اور دین کی حقانیت کا ادراک محض قرآن پاک ہے اور دین کی تشریح حضور پاک کی حیات طیبہ اور احایث ہیں۔ مسلمان کےلئے ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم سے بہرہ مند ضرور ہو بصورت دیگر وہ مسلمان تو ضرور ہوگا مگر اندھا بہرہ مسلمان ہوگا۔
نعیم عصمت کاروباری شخصیت ہیں ۔جنہوں نے رکوع کی بنیاد رکھ کر قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی تحریک شروع کی ہے ۔نعیم عصمت کی مساعی جمیلہ کا بنیادی مقصد ہےکہ قرآن پاک جینے کےلئے پڑھا جائے نہ کہ قبروں اور مردوں پر پڑھ کر محض ثواب دارین حاصل کیا جائے ۔
نعیم عصمت عمرہ کی ادائیگی کے دوران بیت اللہ میں تشریف فرما تھے کہ یکا یک نور کی روشنی دل ودماغ میں عود آئی کہ مسلمان پر قرآن کریم کی صورت میں اللہ کی عنایت ہے مگر ہم مجموعی طور پر قرآن سے اس طرح مستفید نہیں ہورہے ہیں۔ جیسا کہ اک مسلمان کو ہونا چاہیئے اور تنزلی کا شکار ہیں اور اندھے بہرے مسلمان ہیں۔
بیت اللہ میں ملنے والی روشنی کا نام ہی رکوع ہے۔جس نے نعیم عصمت کے دل کی دنیا ہی بدل دی ہےاور پھر نعیم عصمت نے رکوع کی بنیاد رکھ کر قرآن کریم کے فہم کو عام کرنے کےلئے تحریک شروع کردی ہے۔رکوع کےلئے کاروبار کی آمدن سے معقول حصہ مختص کیاجاتا ہے جو قرآن کی تعلیم کو عام کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔قرآنی نورانی قاعدوں سمیت ترجمہ کے متعلق کتابیں بھی شائع کی ہیں۔
رکوع انسانی بھلائی کےلئے بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔رکوع انسٹیٹیوٹ،رکوع سٹریٹ سکولز سمیت مستحق اور ضرورت مند خواتین وحضرات کو مالی امداد کا سلسلہ جاری رہتا ہے.