کرونا کی وبا اور آنے والا عالمی ہیجان

کرونا کی وبا اور آنے والا عالمی ہیجان
کچھ عرصے کے بعد (واضح رہے کہ یہ عرصہ کافی طویل بھی ہوسکتا ہے) کرونا وائرس دنیا کی 7 ارب آبادی سے لاکھوں انسانوں کا خراج وصول کرچکا ہوگا۔ اور زندگی اپنے ہزاروں سالوں کی گذشتہ ناگہانی آفتوں کے تلخ تجربات کے ادوار کے بعد جیسے پھر سے اپنی نمو کے سفر پہ گامزن رہی ایک دفعہ پھر اسی طرح اپنی ڈگر پہ رواں دواں ہو گی۔ لیکن نئی زندگی کے ہر گام پر مابعد کرونا انسان کو اس کی ہزاروں سالہ تہذیب سے حاصل شدہ فہم وتدبر پر تلخ سوالات استقبال کرتے ملیں گے۔

غلامی اور ارتکاز دولت کی مزاحمت دنیا کے سبھی اہل دل تمدن کے آغاز سے کرتے آ رہے ہیں۔ تاریخ میں دولت کی پیداوار اور اس کی منصفانہ تقسیم کے تقاضوں کے پہلو بہ پہلو عقیدہ اور عقل کے مباحث بھی سماج میں مکالمہ کی مختلف شکلیں اختیار کرتے رہے۔ انصاف کی تمنا نے عقل کا ساتھ دیا جبکہ اتفاق اور حوادث کی پیداوار قوتیں مذہب کی طرفدار بنیں۔ حالانکہ تمام مذاہب انصاف کا علم تھامے انسانوں کی غیر مطمئن آبادیوں میں داخل ہوئے۔ یورپ اور عیسائی دنیا میں بادشاہ اور مذہب میں مفادات کی مکمل ہم آہنگی کے باعث عقل کے علمبردار ناقابل یقین ابتلاؤں سے دو چار ہوئے۔ علم اور سائنس کے شیداؤں کو آگ میں جلایا گیا۔ گیلیلو پر مقدمہ اور دوران اسیری اس کی موت جبر کی ایک معمولی مثال ہے۔ غرض انسانی تاریخ ظلم و جبر اور مساوی حقوق کی کشمکش سے بھری ہے۔

نوآبادتیاتی نظام کا جبر اور ثمرات کا دور کہ جسمیں یورپ میں صنعتی دور کے آغاز نے ترقی اور خوشحالی کے حالات پیدا کئے۔ اور یورپ میں خرد افروزی اور صنعتی ترقی نے باہم مل کر کلیسا کو سیاست سے باہر نکال کیا۔ پروٹسٹنٹ عقائد نے خدا تک رسائی کو پادری کی اجارہ داری سے نجات دلائی۔ کالون نے سرمایہ داری کی راہ ہموار کی۔ سیکولرازم اور جمہوریت کی بنیادیں استوار کیں۔ لیکن مشرق اپنے عقائد، ثقافتی بندھنوں، اپنی اشرافیہ کی کاہل طبیعت، چاپلوسی اور نوآبادیاتی نظام کے شکنجے کی وجہ سے اس پیش رفت سے غافل رہا۔ صنعتی ترقی اور نو آبادیوں کی دوبارہ تقسیم کی سامراجی خواہشوں نے پہلی جنگ عظیم کیلئے فضا کو ساز گار کیا۔ اس جنگ میں نو ملین فوجی اور سات ملین شہری ہلاک ہوئے۔ اس جنگ کے دوران نوآبادیاں میں آزادی کی تحریکیں منظم ہونے لگیں۔ سویت انقلاب ہوا۔ دنیا دو واضح نظریاتی بلاکس میں منقسم ہوئی۔ سوشلزم امن اور ترقی کا دعوے دار ٹھہرا جبکہ سرمایہ دار دنیا آزاد معیشت کے نام پر نوآبادیوں کے استحصال پر مصر رہا۔

نوآبادیوں کی ہوس نے اکیس سال کے مختصر عرصے میں دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں میں جھونک دیا۔ اس جنگ میں سات کروڑ سے لیکر ساڑھے آٹھ کروڑ انسان جنگ کا ایندھن بنے۔ ان میں انیس ملین سے اٹھائیس ملین تک وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جنگ سے وابستہ بیماریوں اور قحط کا شکار ہوئے۔ دوسری طرف سویت یونین نے اپنے 35 لاکھ شہری سوشلزم پہ وار دیے۔ مشرقی یورپ پر من پسند حکومتیں مسلط کیں۔ سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ وسائل کا رخ جنگی تیاریوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ سرمایہ دار دنیا نے اپنی سابقہ نوآبادیوں میں اتحادی، غیر جمہوری اور متشدد حکمرانوں کی حمایت جاری رکھی۔ نتیجتاً تیسری دنیا اپنے وسائل سابقہ آقاؤں پہ نچھاور کرتی رہی۔ اور یہ نظام بست و کشاد جدید نوآبادیاتی دور کہلایا۔ سویت یونین کے انہدام نے ملٹی نیشنل سرمایہ کاری اور آزاد منڈی کی معیشت کیلئے مکمل راستہ صاف کیا۔ ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ اور تیز رفتار فضائی سہولیات نے گلوبل ویلیج کے تصور کو حقیقت کا روپ بخشا۔ یونی پولر ورلڈ کے منصوبوں کو مہمیز ملی۔ یہ وہ تاریخی پس منظر ہے کہ جو ہمارے موجودہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کا مؤجب بنا۔

اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر کرونا وائرس کا عذاب ایسے میں نازل ہوا جب تمام دنیا پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے۔ دانش اور تدبر کا فقدان منہ چڑھ کر بول رہا ہے۔ مہا بیانیے (metanarrtives) ردی کی ٹوکری میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ سچائی اضافی اقدار کے طور پر ہر چند ہے کہ نہیں ہے۔ ہر مظہر مشکوک نظر آنے لگا ہے۔ رشتے طاقت کے ساختیاتوں میں تولے جا رہے ہیں۔ معنی کی قطعیت التوا کے کٹہرے میں کھڑی موضوع کے حکم کی منتظر ہے اور کل اپنے اجزا سے سوا لگنے لگا۔ یہ سب کچھ بے وجہ نہیں۔ دراصل انسان ناقابل یقین صنعتی اور سائنسی ترقی کے باوجود سماجی طور پہ قبائلیت اور خوف کے در بند کرنے سے عاجز رہا۔ کرونا نے نامنصفانہ سماج کی بافت کے تمام بخیوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ رنگ، نسل، قوم، مذہب، معاشی و سماجی تقسیم کی دیواریں اس کے بے رحمانہ حملوں کے سامنے ہیچ ثابت ہوئیں۔ تفریق اور منافرت کے سرخیلوں سے لیکر سرمایہ دارانہ سماج کے سیکولر طرفداروں کیلئے بھی آج ارتکاز دولت کے جواز کو ثابت کرنا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام عالم کو کرونا سے کہیں زیادہ خطرہ ان افتادگان خاک سے در پیش ہے جو بھوک اور افلاس سے تنگ آکر مروجہ بالا دستی کے اصولوں پر استوار نظام کو تہہ و بالا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ دنیا سرد جنگ کی نفسیات میں گرفتار ہے۔ یونی پولر ورلڈ کا تصور معاشی مسابقت کی دھند میں دھندلا کر رہ گیا ہے۔ چین ایک اژدھا کی مانند سب کچھ نگلنے کی نیت سے جبڑے کھولے آگے بڑھ رھا ہے۔ امریکہ اپنی سیادت برقرار نہیں رکھ پا رہا۔ عالمی دولت کی دو تہائی حصے پر صرف تین سو خاندانوں کا تصرف ہے۔ انہیں خاندانوں کے حاشیہ نشین حصار بند کالونیوں میں منتقل ہو کر ایک ایسی اقلیتی عالمی ثقافت ترتیب دینے لگی ہے جو دنیا کی غالب آبادی کی ہزاروں سالوں کی روایات اور دانش سے تہی ہوگی۔ جمہوریت کو سرمایہ اور جبر کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش بار آور ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ قیادت کیلئے فہم، فراست، سنجیدگی، دیانت اور علم کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی۔ روزمرہ کے امور بے حس اہلکاروں سے چلانے کی ترکیب نکال کر سیاسی اختلاف کو بے رحمی سے کچلنے کی رسم سیاست ٹھہرائی گئی۔ ریاست تعلیم، صحت اور لوگوں کی عمومی فلاح سے دستبردار ہو چلی ہے۔

تیسری دنیا کی ریاستیں کمزور طبقوں، خواتین اور ثقافتی و مذہبی اقلیتوں کے خلاف جبر کو ریاستی سلامتی کے نام پر سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کیلئے ظالمانہ طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ دنیا میں امیگریشن کے خلاف سخت اقدامات اور نفرت آمیز رویے ترقی اور علم کے ثمرات کو محدود کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ جس عہد میں کرونا کی یلغار ہوئی ہے اس میں محدود اور کمتر سطح پر ریاستی اثر و نفوذ اور عالمی پیمانے پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا رول گلوبل ازم کا متبادل بن گیا ہے۔ بادی النظر میں طاقت کے مراکز کی کثرت کو غلبہ اور ناجائز مفادات کے حصول کے رد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن متبادل کی صورت میں آگے آنے والی قوتیں اس استعداد اور اخلاقی حیثیت کی حامل نہیں جو نجات دہندہ کا کردار ادا کر سکیں۔ پسماندہ قبائلت یا جاگیرداریت ملٹی نیشنل استعداد اور طاقت کا متبادل نہیں بن سکتی۔ قدرتی آفات، وبائیں اور زندگی کے دیگر سنجیدہ مسائل ثقافتی قوم پرستی کے خلاف سنجیدہ سوالات سامنے لاتے ہیں۔ اس صدی کی تیسری دہائی تک دنیا بھر کے لوگ اپنی دولت کے بڑے حصے پر عملی طور پر متصرف نہیں رہے گی۔ ملٹی نیشنل کا اثر رسوخ بڑھے گا۔ بیج وہی اگیں گے جو ملٹی نیشنل فراہم کریں گی۔ فصلیں وہی اگیں گی جو ملٹی نیشنلز کی ضروریات پوری کریں گی۔ لیکن مابعد کرونا کی دنیا کو اب سنجیدہ سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نظریات کو وجود کے فوری تقاضوں کے جواب کا سزاوار ہونا پڑے گا۔ عالمی آلودگی، غربت، جہالت اور معلومات کا فقدان، عورت کی آزادی، پیداواری ذرائع کی ملکیت اور پیداوار کی تنظیم وتقسیم، ملکوں کے باہمی مناقشے اور ان کی خود مختاری کی حدود، جمہوریت اور اس کا احترام، چھوٹی قوموں، ان کی ثقافتوں، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت اور سب سے بڑھ کر تمام انسانوں کیلئے ضروریات زندگی کی ایک ایسی حد کا تعین جس کا احترام دنیا پر ہر حال میں واجب ہو۔ مستقبل کی سیاست کے اہم نکات ہوں گے۔ انسانی حقوق کی ضمانت، سختی سے ان پر پابندی اور خلاف ورزی کے مرتکب لوگوں یا اداروں کی بے لاگ گرفت جیسے مسائل نئے عالمی نظم بست وکشاد کے نمایاں خطوط ٹھہریں گے۔ تیسری دنیا کا حکمران طبقہ عالمی سرمایہ کا ساجھے دار ہوتے ہوئے بھی دانستہ طور پر ریاستی قوم پرستی کو ہوا دے رہا ہے تاکہ اپنے افلاس زدہ شہریوں کو عالم گیریت کی دین، علم اور جمہوریت سے محروم رکھا جا سکے۔ جب کہ انہی ملکوں کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھی عوام کے معاشی، سیاسی، جمہوری، ثقافتی اور شہری حقوق کے مطالبات نظر انداز کر کے عالمی سرمایہ کے ساتھ ساز باز کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ مابعد کرونا کے عہد میں ممکن ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جسکے جواب کا انتظار ہے۔ مابعد کرونا عہد میں پاپولزم، شاونزم، ماحول کو آلودہ کرنے والے بڑے بڑے منصوبوں، شہروں کی وسیع آبادی، جنگی ہتھیاروں کی تیاری، اپنے شہریوں کے خلاف کسی بھی قسم کا امتیاز اور صحت و تعلیم کے مسائل سے اغماض بنی نوع انسان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

ایٹمی اسلحہ اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی وقت کا اہم تقاضا ہوگی۔ ڈیجیٹل ترقی کو فرد کی آزادی کے خلاف استعمال نہ ہونے کے بین الاقوامی قوانین واضح کرکے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے بغیر یہ دنیا ایک وسیع جیل خانہ میں تبدیل ہوگی۔ ہمیں علم و عقل کے اوزان معروضی سچائیوں پر رکھنے ہونگے۔ اور آنے والے دنوں میں خلق خدا کا تقاضا ہوگا کہ وسائل کا زیادہ استعمال صحت، تعلیم، روزگار پہ ہو اور آلودگی سے پاک معاشروں کا مطالبہ اب زور پکڑتا جائے گا۔ کیا آج کا عام شہری اس جنت ارضی کو نیو لبرل ازم، سرمایہ اور فاشزم کے تسلط سے نجات دلا کر مسرت اور سرخوشی کی چند سانسیں بخشنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے؟ جب کہ آج کا جدید معاشرہ ماحول کی آلودگی ، حیوانوں کی مختلف انواع اور نایاب حیوانوں کی نسلوں کی معدومیت کے جرم کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے۔ ان موضوعات پر اٹھنے والے سوالات بھی مابعد کرونا کے معاشرے میں اپنا جواب مانگیں گے۔ یہ سوال اور اوپر اٹھائے گئے سوالات مابعد کرونا عہد کی نظریاتی اور سیاسی تجسیم کا حوالہ ہیں۔