بدعنوان انتظامیہ اور بے حس سیاسی ٹولے پر مشتمل اشرافیہ پاکستان کا اصل مسئلہ ہے

پاکستان میں مشرقی ایشیائی ریاستوں کی طرز پر مبنی تیز رفتار معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے ماڈل کے برعکس صورت حال پائی جاتی ہے۔ یہاں اشرافیہ معیشت اور سیاست کے گرد اپنا دائرہ تنگ کر رہی ہے جبکہ عوام غربت کے دائرے میں بند ہیں۔ یہ دونوں دائرے اپنی اپنی جگہ پھیلتے جا رہے ہیں۔

بدعنوان انتظامیہ اور بے حس سیاسی ٹولے پر مشتمل اشرافیہ پاکستان کا اصل مسئلہ ہے

پاکستانیوں، خاص طور پر غریب، کمزور اور کم وسائل رکھنے والے طبقات کے مصائب میں اُس وقت تک کمی نہیں آئے گی جب تک آئینی جمہوریت کے سنہرے اصولوں، جیسا کہ مساوات، سماجی انصاف اور عدل کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 کے تحت معاشرے میں رائج نہیں کر دیا جاتا۔ آج پاکستان سول بیوروکریسی، صنعت کاروں، دولت مند تاجروں اور جاگیردار اشرافیہ پر مشتمل طبقے، جو مل کر سیاسی اور جمہوری عمل پر اجارہ داری رکھتا ہے، کی گرفت میں ہے۔ پاکستان کی معیشت صرف اسی طبقے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس کا سیاسی عمل انہی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس کی جمہوریت انہی کے گھر کی باندی ہے۔ یہ ریاستی اشرافیہ نہ صرف ٹیکس دہندگان کی رقوم سے فائدہ اٹھاتی ہے بلکہ یہ حاصل کردہ سہولیات کے عوض وطن کو کچھ دیتی بھی نہیں۔ بے رحم جاگیردار اور بے حس صنعت کار مزدوروں کا استحصال کر کے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ بددیانت تاجر مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف حکومتیں بھی غریب اور متوسط طبقے، جس کی آمدنی کم اور محدود ہے، پر بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ لاد دیتی ہیں۔

یہ ہے آج کے پاکستان کا المیہ جو اس پیر کو اپنی آزادی کی 76 ویں سالگرہ منانے جا رہا ہے۔

اس اشرافیہ کا برتاؤ افسوس ناک حد تک شرمناک ہے۔ ان کے درمیان موجود ساجھے داری اور ہونے والے رشتے ناطے انہیں ایک کنبہ بناتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات حیرت ناک نہیں کہ یہ سب مل کر ایک دوسرے کے مفاد کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان سب کا ہاتھ ریاست کو کنٹرول کرتا ہے، جبکہ عوام حیرت سے اس طبقے کے اللے تللے دیکھتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل پر خود کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک سول بیوروکریسی کا تعلق ہے تو وہ اچھے عہدوں اور پرکشش مقامات پر تقرری، بیرونی ممالک کے دوروں اور سرکاری خرچے سے پرآسائش زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ زیادہ تر اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران کا تعلق سیاسی خاندانوں سے ہوتا ہے یا قائم کر لیا جاتا ہے۔ اسی خاندان میں یہ محاورہ سچ ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے؛ 'اپنا اپنا، غیر غیر'۔ اس طبقے کا بھیانک گٹھ جوڑ عوام کے مفاد کو ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ تہہ در تہہ رشتے داری اور خاندان در خاندان روابط نے ہماری بیوروکریسی کے نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

آزادی کا جشن منانے والے پاکستان کے ریاستی اداروں کو سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور بدعنوانی نے دیمک کی طرح چاٹ کر تباہ کر دیا ہے۔ کئی آپریشنز کے باوجود امن و امان کی صورت حال دگرگوں اور دہشت گردی کا نیٹ ورک تاحال قائم ہے۔ اگرچہ ریاست تحفظ کے نام پر بھاری ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن وہ عوام سے کہتی ہے کہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام خود کریں۔ ریاستی مشینری صرف حکمرانوں کا تحفظ کرنے میں مصروف ہے، اس کو عوام کے جان و مال سے کوئی سروکار نہیں۔

بطور وزیر اعظم کسی نے بھی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انہوں نے اپنے گرد ویسے ہی خوشامدی جمع کر رکھے ہیں جو ہر دور میں مشکلات کا باعث بنے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے اعلیٰ پایے کے افسران کو ترقی سے محروم رکھا گیا ہے حالانکہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے ان کی سفارش کی تھی۔ دوسری طرف اپنے من پسند افسران کو ترقی سے نوازا جاتا رہا ہے۔ دراصل یہ اشرافیہ جمہوریت کی آڑ میں اسی قسم کے کھیل کھیلنا روا سمجھتی ہے۔ یہ پاکستان کو ایک جمہوری ریاست کبھی نہیں بننے دے گی کیونکہ عوام کی خوشحالی اور آگاہی سے ان کی طاقت اور استبداد میں کمی آ جائے گی۔

چوتھی بار کے فنانس منسٹر اسحاق ڈار کی طرف سے پیش کیے گئے ہر بجٹ میں ایک بات مشترک تھی کہ دولت مند طبقے پر ایک بھی ٹیکس نہ لگایا گیا۔ بجٹ 2023-24 میں تقریباً 7 ہزار ٹریلین روپے کے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ دولت مند اور صاحب حیثیت افراد اور امیر تاجروں سے بھاری ٹیکسز وصول کیے جاتے لیکن حال ہی میں ختم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت ایسے افراد کے لیے آسمانی نعمت ثابت ہوئی ہے۔ انہیں ہر ممکن حد تک ٹیکس میں چھوٹ دی گئی تا کہ انتخابات میں بھاری رقم چندے کے نام پر لی جا سکے۔ دوسری طرف تنخواہ دار درمیانے طبقے پر مزید انکم ٹیکس اور عام عوام پر سیلز ٹیکس بشمول بہت سے اور محصولات بجلی اور گیس کے بلوں کے ساتھ لگا دیے گئے۔ اس دوران ملکی اور غیر ملکی قرض فراہم کرنے والے اداروں سے مزید قرضہ جات لے کر قوم کو قرض کی جیل میں بند کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

ہمارے ملک میں قرضے لینے کو بھی فنانس منسٹر کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر اشرافیہ خوش رہتی ہے کیونکہ قوم قرض کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جاتی ہے لیکن ان کی جیب پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ سارا مالی بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی مطلق ترجیح نہیں۔ اس کے باوجود دعویٰ ہے کہ ملک میں آئینی جمہوریت رائج ہے۔

ڈاکٹر عشرت حسین اپنی کتاب 'The Economy of an Elitist State' میں کہتے ہیں کہ پاکستان میں مشرقی ایشیائی ریاستوں کی طرز پر مبنی تیز رفتار معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے ماڈل کے برعکس صورت حال پائی جاتی ہے۔ یہاں اشرافیہ معیشت اور سیاست کے گرد اپنا دائرہ تنگ کر رہی ہے جبکہ عوام غربت کے دائرے میں بند ہیں۔ یہ دونوں دائرے اپنی اپنی جگہ پھیلتے جا رہے ہیں۔

اپنی کتاب 'پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج'‘ میں ڈاکٹر خلیل احمد بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں عوام نظرانداز ہو رہے ہیں جبکہ اشرافیہ ریاست کے تمام وسائل پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔

درحقیقت یہ اشرافیہ ایک مافیا کی طرح کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایف بی آر بدنام ایس آر اوز کے ذریعے طاقتور طبقوں کو ٹیکس کی چھوٹ دے کر دولت جمع کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ گذشتہ 30 برسوں کے دوران 5000 بلین روپوں کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فنانس بل 2023 پیش کرنے سے پہلے ایف بی آر نے خاص طور پر شوگر اور سٹیل انڈسٹری کو فائدہ پہنچانے والے نوٹیفیکیشن جاری کیے (یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہی حکمران طبقے کا بزنس ہے)۔

پاکستان کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ نااہل اور بدعنوان انتظامیہ اور بے حس سیاسی ٹولہ پاکستان کا اصل مسئلہ ہے۔ بدعنوان انتظامیہ اور بے حس سیاسی ٹولہ عوام کو سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے کا روادار نہیں۔ اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے پیش آنا شروع ہو گئے ہیں کہ عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ یہ خطرناک رجحان حکمران طبقے کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے کافی ہونا چاہئیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور حقیقی آزادی کا تصور مزید مبہم ہو کر رہ جائے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔