اللہ دتہ سے میری پہلی ملاقات چکوال کے ایک گائوں مہلال مغلاں میں ہوئی۔ ہم کچھ احباب علی الصبح آسٹریلیا اور پاکستان کا مقابلہ دیکھ رہے تھے۔ موصوف تشریف لائے اور اپنے دلفریب چکوالی لہجے میں یوں گویا ہوئے 'کیہ پیا بڑنا؟ ' ہم نے بتایا کہ اچھا آغاز ہے اور کوئی آوٹ نہیں ہوا۔ بولے 'شین وارنا آیا کہ نئیں' ہم نے بتایا ابھی نہیں۔ 'اوہ آسی تے لین لگسی' اور یہی ہوا۔
تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود اللہ دتہ کھیل کے میدان سے لے کر عالمی سیاست اور معیشت پر تبصرہ کرنے پر قادر تھے۔ ماضی قریب میں ایک بار پھر ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو بات پاکستانی سیاست کی جانب چل نکلی۔ میں نے برطانوی یونیورسٹی سے حاصل کردہ فضائل جمہوریت گنوائے تو انہوں نے مجھے ٹوک دیا۔ ڈیزل کی کمیابی کا رونا روتے ہوئے بتایا کہ زمیندارا برباد ہے۔ ڈیزل مل بھی جائے تو بیش قیمت ہے۔ اشیائے خورونوش کی افراط زر کا نوحہ بھی پڑھا اور گرمی کی شدت میں بجلی ندارد۔ غرض ہر دوسرے فقرے میں شہباز حکومت کے خلاف مغلظات کا ایک نہ تھمنے والا طوفان تھا۔
اس طوفان کی زد میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ازخود جمہوریت بھی خس وخاشاک کی طرح بہا دی اور آہ بھر کر بولے کہ ایوب خان کا وقت اچھا تھا۔ میں نے ایک بار پھر آمریت کی تباہ کاریوں اور جمہوریت کے فوائد کا راگ چھیڑا مگر اس وقت تک جناب اللہ دتہ اور ہماری محفل میں موجود دیگر ناخواندہ مگر فہیم پاکستانی مجھے اس بات کا احساس دلا بیٹھے کہ نظام حکومت کا نام کچھ بھی ہو اس کو پرکھنے کا واحد ترازو قوت خرید اور افراط زر کے درمیان ہی جھولتا ہے۔
اس کی ایک تاریخی مثال اموی خلافت کے قوانین سے لی جا سکتی ہے۔ اسلامی خلافت کے تیز پھیلائو کے دوران بہت سے عجمی جزیہ سے بچنے کی غرض سے جوق درجوق مشرف بہ اسلام ہوئے جس سے خلافت کے خزانے کو مشکلات کا سامنا ہوا۔ امیر المومنین نے اس معاشی مشکل کا حل یوں نکالا کہ نومسلموں کو ایک سال تک خلافت مسلمان قبول کرنے سے انکار کرتی اور نومسلموں کو قبول اسلام کے پہلے سال میں جزیہ ادا کرنا پڑتا۔ امت مسلمہ کا بھائی چارہ اپنی جگہ لیکن معاشی حقائق باقی تمام جذبات واحساسات پر بھاری ہوتے ہیں۔
چکوال سے واپسی پر میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ کیا پاکستان میں مقتدرہ حلقوں کی طاقت پر اجارہ داری کو پاکستان کے عوام ایک قومی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں؟ اور میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔ پاکستان میں شخصی آمریت جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو گمراہ کیا کرتی ہے۔ اس نظام میں عوام کے لئے نہ تو حقوق ہیں اور نہ ہی ان کے مسائل کا حل ہے۔
بھٹو صاحب کے دور میں جمہوریت کے علمبردار جالب ''لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو'' جیسے کلام کے مرتکب ہوئے اور بینظیر کے دور میں فرمایا ''پائوں ننگے ہیں بینظیروں کے''۔ خفیہ ایجنسی کا سیاسی ونگ جس کا آغاز بھٹو صاحب نے کیا تھا آج بھی قائم ہے اور ہر جمہوری وزیراعظم اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف اس کا استعمال عین عبادت سمجھ کر کرتا ہے۔ جب عوام کی مایوسی حد سے بڑھ جائے اور اقتدار جاتا رہے تو ہمارے جمہوری وزرائے اعظم اپنی اغلاط سدھارنے کی بجائے توپوں کا رخ اپنی ہی افواج کی جانب کر دیتے ہیں۔ سول مارشل لا، گورنر راج، اٹک سازش اور عوامی نیشنل پارٹی کی پابندی کا ساتھ سیاستدانوں کو زنداں میں ڈالنے کے کارنامے جناب بھٹو صاحب کے ہی ہیں۔
محترمہ کا دور اقربا پروری، ارکان اسمبلی کی خرید وفروخت اور ناقص حکومتی کارکردگی کی ایک مثال بنا۔ میاں نواز شریف جو خود کو ضیاء الحق کا روحانی فرزند گردانتے تھے ہمہ وقت شریف خاندان کو پاکستان کا شاہی خاندان بنانے کی سعی لاحاصل کرتے رہے۔ زرداری صاحب کی قید اور تشدد اور سیف الرحمان کی ماورائے عدالت کارروائیاں بھی نواز دور میں ہی ہوئیں۔
عمران خان صاحب نے بھی تقریباً تمام حزب اختلاف کو کٹہرے سے زنداں کے طواف میں مصروف رکھا اور آج ہم اسی جمہوری تاریخ کا ایک نیا باب شہباز گل کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مملکت خداد کی اس روشن جمہوری تاریخ میں عوام کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر مارشل لا اور جمہوریت دونوں میں انجام مکئی کی روٹی پیاز کے ساتھ کھانا ہی ہے تو نظام حکومت کے بدلنے سے مہلال مغلاں کی محفلوں پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ایوب خان کا دور اچھا تھا، جب جمہوری ادوار کی طرح جالب کی زباں بندی تو تھی لیکن قوت خرید اور افراط زر کا فاصلہ کہیں کم تھا۔