Get Alerts

بلوچستان؛ خواتین پولنگ ایجنٹس کو متعدد چیلنجز درپیش ہوتے ہیں

خواتین پولنگ ایجنٹس مقررہ وقت سے پہلے پولنگ سٹیشن پہنچ جائیں، اکیلے سفر نہ کریں اور اپنی سکیورٹی کو یقینی بنائیں۔ اگر انہیں اغوا کر لیا جائے یا مار پیٹ کا نشانہ بنایا جائے یا وہ دیر سے پولنگ سٹیشن پہنچیں تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

بلوچستان؛ خواتین پولنگ ایجنٹس کو متعدد چیلنجز درپیش ہوتے ہیں

بلوچستان میں 8 فروری کو قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر براہ راست الیکشن ہوں گے جن میں 52 لاکھ 84 ہزار ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ عام انتخابات کیلئے تقریباً 5067 پولنگ سٹیشن بنائے جائیں گے جن میں 52 ہزار افراد پر مشتمل عملہ تعینات کیا جائے گا۔ بلوچستان سے قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 255 صوبے کا سب سے بڑا حلقہ ہے جو 11 لاکھ 24 ہزار 5 سو 67 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ سب سے چھوٹا حلقہ این اے 262 کوئٹہ ون ہے جو 7 لاکھ 99 ہزار 8 سو 86 افراد کی آبادی پر تشکیل دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ان 5067 پولنگ سٹیشنز پر 52 ہزار پولنگ سٹاف تعینات کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی کیلئے آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا حلقہ پی بی 23 آواران ہے جہاں کل آبادی 1 لاکھ 78 ہزار 9 سو 58 ہے جبکہ سب سے بڑا حلقہ پی بی 51 چمن ہے جس کی آبادی 4 لاکھ 66 ہزار 2 سو 18 ہے۔ الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر بلوچستان حکومت نے صوبے میں قائم کئے جانے والے 5 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنوں کی مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی الیکشن میں مختلف سیاسی جماعتوں میں اہم عہدوں پر فائز خواتین بھی براہ راست انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔ ملکی آبادی کا نصف سے زائد حصہ ہونے کی وجہ سے خواتین کا ووٹ نئی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم ضروری ہے کہ خواتین کو بھی ووٹ ڈالنے میں اتنی ہی آزادی ہو جتنی مردوں کو ہوتی ہے۔ بلوچستان جیسے قبائلی معاشرہ میں جہاں خواتین کا گھر سے نکلنا مشکل ہے جب ان مشکلات کے باوجود وہ پولنگ ایجنٹس کے طور پر کام کرتی ہیں تو ان کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے سر پر بہت اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ الیکشن کے دن پولنگ سٹاف یا ووٹروں کی جانب سے دھاندلی یا بے ضابطگیوں کو روکنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کی عام ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ پولنگ سٹیشن میں صرف پولنگ سٹاف، پولنگ ایجنٹس، مقابلہ لڑنے والے امیدواروں اور ان کے نامزد کردہ الیکشن ایجنٹس کے سوا کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پولنگ ایجنٹس کو پولنگ کے عمل کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوتا ہے اور پولنگ بکسوں پر کڑی نظر رکھنا ہوتی ہے۔ ان کی بنیادی ڈیوٹی مانیٹرنگ کرنا ہوتی ہے۔ پولنگ ایجنٹس پولنگ کا کمرہ چھوڑ کر نہیں جا سکتے کیونکہ ان کی غیر موجودگی میں کوئی بھی مشکوک کام ہو سکتا ہے۔ پولنگ ایجنٹس کو فوری طور پر پولنگ سٹاف یا کسی بھی غلط حرکت کے بارے میں یا بے ضابطگی کی صورت میں ریٹرننگ افسران کو رپورٹ دینا ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران بھی رابطے کا ذریعہ نہ ہونا ان کیلئے ایک چیلنج ہو گا۔

کئی بار سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے شکایت کی ہے کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو ووٹوں کی گنتی کے وقت باہر نکال دیا گیا اور یہ کہ انہیں فارمز 45 اور 46 کی نقول نہیں دی گئیں۔ الیکشن کمیشن پاکستان نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو اس حوالے سے شواہد فراہم کرنے کا کہا تا کہ مناسب اقدامات کیے جا سکیں۔ چونکہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شکایات سامنے رکھ دی گئی ہیں لہٰذا ان شکایات پر سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی سیکرٹری صاحبہ بڑیچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے تاہم پھر بھی یہاں عورتیں پچھلے 40 سال سے سیاست کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی پولنگ ایجنٹ رہ چکی ہیں، بہت سے الیکشن میں اپنی پارٹی کی طرف سے پولنگ ایجنٹ کا کام سرانجام دیا۔ بلوچستان میں خواتین کے لیے پولنگ ایجنٹ بننا بہت مشکل کام ہے۔ شہری سطح پر تو صورت حال پھر بھی بہتر ہوتی ہے لیکن دیہی علاقوں میں اب بھی اثر و رسوخ سے کام لیا جاتا ہے۔ خواتین پولنگ ایجنٹس پولنگ سٹیشن پر خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں جب الیکشن ہوتا ہے تو زیادہ تر حکومت کی نااہلی کی وجہ سے فی میل پولنگ ایجنٹس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں جو مردوں کو دی جاتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو فارم 45 بہت مشکل سے ملتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جو عورت معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے کہیں جاتی نہیں اور جب الیکشن کے دن اسے پولنگ ایجنٹ کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ اس حد تک پراعتماد نہیں ہوتی کہ فارم 45 پریزائیڈنگ افسر سے لے سکے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں الیکشن کے دوران فیمیل پولنگ سٹیشن پر بہت سے سکیورٹی خدشات ہوتے ہیں اور خواتین پولنگ سٹیشن پر فی میل سکیورٹی نہ ہونے کی  وجہ سے خواتین پولنگ ایجنٹ اور خواتین ووٹرز کو بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ الیکشن کے دوران فی میل پولنگ سٹیشن پہ فی میل سکیورٹی اہلکار کو ہی تعینات کیا جائے تا کہ پولنگ ایجنٹ اور ووٹ کاسٹ کرنے والی عورت کو آسانی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ 8 فروری 2024 کو ہونے والے الیکشن میں نئے پولنگ ایجنٹ کو یہ مشورہ دینا چاہوں گی کہ سخت سکیورٹی کے دوران اور نقل حرکت کا تقریباً موقع نہ ہونے اور رابطے کا ذریعہ نہ ہونے کے دوران بے ضابطگی کی صورت میں ان کے پاس ریٹرننگ افسران، متعلقہ ای سی پی حکام کے پاس فوری شکایت درج کرانے یا میڈیا کو مطلع کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا۔ انہیں پہلے سے ہی اس صورت حال کی تیاری کرنا ہو گی کہ اگر وہ شکایت درج کرانا چاہیں یا کوئی پیغام باہر بھیجنا چاہیں، یا بے ضابطگی کی اطلاع دینا چاہیں تو کیا کریں۔ ان جیسی اور بھی بہت سی مشکلات انہیں درپیش ہوں گی۔

پولنگ ایجنٹس پولنگ سٹیشن کے باہر اپنے ساتھیوں کو مقرر کریں جو انہیں پولنگ سٹیشن سے باہر ووٹنگ کا عمل سست کرنے کی کسی بھی کوشش سے آگاہ کر سکیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں اس حلقے کے نتائج پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پولنگ سٹیشن مقررہ وقت سے پہلے پہنچیں، اکیلے سفر نہ کریں اور اپنی سکیورٹی کو یقینی بنائیں۔ اگر انہیں اغوا کر لیا جائے یا مار پیٹ کا نشانہ بنایا جائے یا وہ دیر سے پولنگ سٹیشن پہنچیں تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اگر پولنگ سٹیشن پر پولنگ سٹاف دیر سے پہنچے تو پولنگ ایجنٹس فوری طور پر متعلقہ آر او کو آگاہ کریں۔ ایسی صورت میں پولنگ کا عمل متاثر ہو گا۔ ماضی میں کچھ سیاسی جماعتیں ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں اور اس حکمت عملی کو کچھ سیاسی جماعتوں نے ان مقامات پر دھاندلی کی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا تھا جہاں ان کے مخالفین کا ووٹ بینک زیادہ تھا۔

صاحبہ بڑیچ کا کہنا تھا کہ ووٹنگ کا عمل بند ہونے والا ہو تو پولنگ ایجنٹس خود اور باہر موجود ان کے ساتھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسے ووٹرز جو 5 بجے بھی باہر موجود ہوں انہیں پولنگ سٹیشن میں داخل ہونے دیا جائے اور اگر انہیں داخل نہ ہونے دیا جائے تو فوری طور پر میڈیا، آر او اور متعلقہ ای سی پی حکام کو آگاہ کریں۔ انتخاب شروع ہونے سے دو گھنٹے قبل پولنگ عملے کی موجودگی یقینی بنانا، فارم 45 اور فارم 46 کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنا، سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 کا رزلٹ فراہم کرنا شامل ہے۔ اگر پریزائیڈنگ افسر کسی بھی موقع پر یہ سمجھتا ہے کہ خواتین کو آزادنہ طریقے سے ووٹ کاسٹ نہیں کرنے دیے جا رہے یا انہیں روکا جا رہا ہے یا کسی مخصوص معاہدے اور ڈیل کے تحت ووٹ ڈالا جا رہا ہے تو وہ اس کی خصوصی رپورٹ ریٹرننگ افسر کو دینے کا پابند ہے۔

فیروز خان خلجی صحافی ہیں اور ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ وہ جیو نیوز کے کوئٹہ بیورو سے منسلک ہیں۔