انتخابات 2018 اور انتخابی معیشت میں تیزی کا رجحان

انتخابات 2018 اور انتخابی معیشت میں تیزی کا رجحان
انتخابات 2018 میں کون جیتے گا اور کون ہارے گا یہ فیصلہ تو 25 جولائی کو ہوگا لیکن کراچی میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی سرگرمیاں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اس بات کا یقین ہے اپنے حلقے سے سیٹ وہی نکالیں گی۔ پرنٹنگ پریس ایسوسیشن کےصدر نثاراحمد کہتے ہیں کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات کی نسبت اس سال انتخابی سرگرمیوں میں 100 فیصد زیادہ سرمایا کاری کی جارہی ہے۔



سیاسی جماعت کے جھنڈے ہوں یا ٹوپیاں یا پھر بیجز اس وقت مارکیٹ میں سب دستیاب ہے۔ انتخابی سرگرمیوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ نثار احمد کہتے ہیں کہ ماضی میں کراچی میں محض ایک جماعت مطلب ایم کیو ایم ہی انتخابات میں آگے نظر آتی تھی۔ لیکن اب انتخابات 2018 میں صورتحال یکسر مختلف نظر ا رہی ہے۔ اب میدان کھلا ہے۔



مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف ہوں یا پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو، تینوں ہی بڑی جماعتوں کے سربراہ کراچی کے مختلف حلقوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی میں انتخابی سرگرمیوں میں سرمایا کاری اپنے عروج پر ہے۔ نثار احمد کے مطابق کراچی میں انتخابات میں سرمایا کاری کرنے میں پیپلزپارٹی دیگر جماعتوں سے سبقت لے گئی ہے کیونکہ انہوں نے سندھ میں حکومت کی ہے تو وہ انتخابات میں پیسہ بھی دل کھول کر لگا رہے ہیں۔



اس ساری گہما گہمی میں خوش آئند بات یہ ہےکہ انتخابی سرگرمیوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے سرمایہ کاری سے پرنٹنگ پریس کی صنعت کواستحکام ملا ہے اور دولت چند ہاتھوں سے نکل کر انڈسٹری تک پہنچ رہی ہے۔ پرنٹنگ پریس ذرائع کے مطابق اب تک انتخابی سرگرمیوں میں سرمایا کاری کروڑوں سے نکل کر اربوں تک پہنچ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 2 سے ڈھائی ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے جبکہ ابھی بھی سرمایہ کاری جاری ہے۔ نثاراحمد خوش ہیں۔ کہتے ہیں کہ جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے تاکہ روپے کی گردش میں اضافہ ہو سکے۔

مصنفہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور مختلف صحافتی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔