Get Alerts

پنجاب میں عمران خان کے 'عوامی' بیانیے کی کامیابی

پنجاب میں عمران خان کے 'عوامی' بیانیے کی کامیابی
اتوار، 17 جولائی کو تحریک انصاف نے پنجاب کے ضمنی انتخابات کا میدان 20 میں سے 15 سیٹیں جیت کر اپنے نام کرلیا۔ پنجاب روایتی طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان نتائج نے ثابت کیا ہے کہ حکمراں جماعت کی گرفت صوبے پر کمزور پڑ رہی ہے۔ 50 فیصد ووٹر ٹرن آئوٹ کے ساتھ یہ انتخابات پاکستان کی انتخابی تاریخ کا ایک بڑا ریکارڈ بنا گئے۔

اس انتخابی حمایت کا سبب وہ متبادل حقیقیت ہے جو 'کرشماتی' عمران خان کئی دہائیوں کے دوران سامنے لائے ہیں۔ اس میں اپریل 2022ء کا وہ جذباتی عنصر بھی شامل ہو گیا جب سابق وزیراعظم کو 'جبری' طور پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سربراہ تحریک انصاف لوگوں کی ایک معقول تعداد کو اپنی 'جبری برطرفی' کے بیانے پر قائل کرنے میں کامیاب رہے۔

لیکن چند متفرق توجیحات ان نتائج کی تشریح نہیں کرسکتیں، کئی اور وجوہات مذکورہ نتائج کا باعث بنیں، جیسا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور توانائی کا بحران۔ تلخ حقیقت یہ کہ پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام کے تحت اسٹرکچرل ایڈجسمنٹ کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ لیکن کم از کم مختصر المدتی مرحلے میں استحکام کی یہ کوششیں عوام کے لئے سخت پریشانی کا سبب بنی ہیں۔

جون میں مہنگائی کی شرح 21 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو کہ اصل شرح سے نہایت کم ہیں۔ غذائی مہنگائی بھی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے جبکہ آمدورفت اور گھریلو توانائی کے ذرائع کے اخرجات متوسط اور کم آمدن گھرانوں کے لئیے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔

نتائج کے حوالے سے ایک بے بس اور طاقت سے محروم پاکستانی ووٹر کے پاس حکمراں جماعت کو 'جواب' دینے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ بچتا ہے۔ سڑک پر چلنے والے ایک عام فرد کے لئے تحریک انصاف کی حالیہ برسوں کی کارکردگی اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں بجلی اور دیگر اشیا کی بڑھی ہوئی قیمتیں ہیں۔

زیرک سیاستدان اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں حکمراں جماعت نے آخری وقت تک اپنی سی کوشش کی لیکن یہ کوشش ماضی کی طرح کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ لیکن اہم بات یہ کہ حکمراں جماعت کے اندرونی مسائل بھی پنجاب پر ان کی گرفت کمزور کرنے کا باعث بنے۔ مسلم لیگ نواز کو اپنی اس سیاسی پوزیشن سے دستبردار ہوتے دیکھا گیا جو اسٹیبلشمنٹ کے مقابل ملک میں سویلین برتری سے متعلق تھی۔

یہ پہلو حکمراں جماعت کیلئے اس لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوا کہ عمران کی برطرفی کے بعد فضا اسٹیبلشمنٹ مخالف ہو چکی تھی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس کا 'اعزاز' بھی خود نواز شریف کو جاتا ہے کیونکہ ووٹرز کو سمجھایا گیا تھا کہ سویلین برتری کے تصور کے بغیر کوئی بھی عوام دوست تبدیلی ناممکن ہے۔

شہباز شریف کی جانب سے اپریل میں وزیراعظم ہائوس میں قدم رکھنے کو مذکورہ پوزیشن، نواز شریف اور مریم نواز کے اصولوں پر مفاہمت سے تعبیر کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ اسیٹبلشمنٹ سے فوائد سمیٹنے والے عمران خان نے بھی اس صورتحال میں شہباز شریف کو 'بوٹ پالشیا' کا خطاب دیا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ٹکٹ دینے کے مرحلے میں مسلم لیگ نواز نے کچھ مخلص اور وفادار افراد کو نظر انداز کیا جس کا نقصان انہیں ان کے گڑھ میں ہوا۔ نتیجہ یہ کہ عمران کے بیانیے کے مقابلے میں موثر حکمت عملی اپنائی نہ جاسکی۔

نتیجہ؟ ملکی ضمنی انتخابات کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹرن آئوٹ۔ تاریخی حقائق کے برعکس یہ ٹرن آئوٹ تقریباً تمام حلقوں میں 40 یا 50 فیصد سے زائد ہی رہا، جبکہ بھّکر میں یہ شرح حیرت انگیز 65 فیصد تک چلی گئی۔

تو اب کیا ہوگا؟ انتخابات کے بعد حمزہ شہباز وزیراعلیٰ نہیں رہ سکتے اور ان کی عدم موجودگی میں شہباز حکومت بھی لڑکھڑا جائے گی۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ شہباز شریف عہدے سے مستعفیٰ ہوں اور اور ملک کو مزید سیاسی دھچکوں سے بچائیں۔ نئے انتخابات عمران خان کو دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر لا سکتے ہیں اور ممکنہ طویل المدتی نگراں سیٹ اپ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور سب سے اہم یہ کہ نومبر میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع یا نئے آرمی چیف کا تقرر نئے وزیراعظم کے تحت ہی ہوگا۔

یہ وہ وقت بھی ہے جب اسیٹبلشمنٹ کو اپنی 2016ء کی مہم جوئی کا مسئلہ سمجھنا ہوگا جس کی وجہ سے یہ پورا مسئلہ عدم سے وجود میں آیا۔ نئے انتخابات کی صورت میں نئی حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدے کا اختتام پاکستان کو ڈیفالٹ تک لے جائے گا۔

اور اگر حکومت کو سابقہ حربوں کے استعمال کے ذریعے سیاسی انجینئرنگ سے گزارا گیا تو عمران خان مزاحمت کا نیا دور شروع کر بیٹھیں گے جس سے مزید عدم استحکام اور بے چینی پیدا ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ (اور شریفوں کے لئے بھی) یہ ایک بند دروازہ اور کڑوی گولی ہوگی جبکہ ووٹرز فیصلہ کریں گے کہ ملک کا آئندہ کا طرز حکمرانی کیا ہو۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔