کچھ دوست کہتے ہیں کہ ان دنوں وہ جونہی کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو ایسا تاثر ملتا ہے جیسے فیض آباد دھرنے میں کھڑے ہیں لیکن سٹیج پر سیاسی جماعتوں کا قبضہ ہے۔ میں لیکن انہیں یاد کروانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ سب تماشہ دہائیوں سے چل رہا ہے، بس اس دفعہ شدت کے ساتھ کٹھ پتلیوں کا ناچ سوشل میڈیا کے باعث زیادہ بھونڈا محسوس ہونے لگا ہے. ورنہ انتخابی نشان "کتاب" کو کلامِ پاک کا استعارہ قرار دے کر ووٹ مانگنے والی روش بھی سب کو یاد ہے، عورت کے حقِ حکمرانی کو اسلام کے منافی قرار دیے جانے کا تماشہ بھی کوئی نہیں بھولا کہ لوگوں کو تنسیخِ نکاح کی وعید تک سنائی گئی اور اسی طرح "تلوار" کے انتخابی نشان کو حضرت علی کی "ذوالفقار" سے تشبیہہ دینے کے حربے یادداشت کھنگالنے پر ہماری سیاسی جماعتوں کی تاریخ سامنے لے ہی آتے ہیں۔ "سودی نظام" کارڈ کو استعمال کرنے والوں کی اپنی تاریخ افغان جہاد کے نام میں لتھڑی پڑی ہے۔ اس حمام میں کسی کا پردہ ہے ہی نہیں۔ اسی طرح سیاست میں روشن خیالی کے پرخچے اڑتے دیکھے بھی ہیں اور سنے پڑھے بھی ہیں۔
ہمارے ہاں ہر سیاسی جماعت موقع اور اشارہ پاتے ہی جو ہیجان برپا کرتی ہے اس میں کئی پرانے داغ دھُل جاتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات تو نہیں ہے کہ جب خورشید شاہ صاحب کے خلاف گستاخی کارڈ استعمال کیا گیا۔ ایک معمولی سیاسی بیان کے جواب میں کراچی کی دیواریں سیاہ کروا دی گئیں۔ گستاخِ رسول قرار دیتے ریلیاں نکالی گئیں۔
پرویز رشید صاحب کو ٹاک شو میں اتنا مجبور کردیا گیا کہ ایمانِ مفصل اور ایمانِ مجمل کے ترجمے سنا کر راسخ العقیدہ ہونے کا ثبوت دینا پڑا۔
چلیے یہ تو سیاستدان ہیں، کیا ہم بھول جائیں کہ مظلوم کی آواز بننے والی اصولوں پرستی کا استعارہ عاصمہ جہانگیر کے عقیدے کو لے کر اسی ملک کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا پرسنز نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔
ایک چینل پر اشتہار نہیں چلتا لیکن زہر کے ٹیکے دن رات پیوست کیے جاتے ہیں
ہم لوگ مشال خان کے قتل پر اس آگ کی شدت کا تخمینہ ہی نہیں لگا پائے جو کہ ریاست اور معاشرتی نظام کو بھسم کررہی ہے۔ چند بلاگرز کو گھروں سے اٹھا لینے کے بعد ایک ایسے چینل پر ان خاندانوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لئے خطرے میں ڈال دی گئیں جہاں کوئی اشتہار نہیں چلتا لیکن زہر کے ٹیکے دن رات معاشرتی سوچ اور رویوں میں پیوست کیے جاتے ہیں۔ غیبی امداد پر چلتا ہے یہ چینل شاید۔ غدار تو اب معمولی الزام بن چکا ہے، سیدھا ملحد ہونے کا لیبل لگائیں اور واجب القتل قرار دے دیجیے اور ثابت کریں کہ آپ جس اللہ کو مانتے ہیں وہ اس "ملحد" پر بارش اور سورج تنگ کرے نہ کرے لیکن آپ کو لائسنس ہے کہ لاش کو بھی عبرت کا نشان بنا دیں۔
سیاسی میدان میں کارکردگی صفر رکھنے والی مہرہ قوتوں نے خود کو ایک قاتل کی جانشین سمجھ لیا ہے
آج کی بات کی جائے تو پانچ برسوں کے دوران سیاسی میدان میں کارکردگی صفر رکھنے والی مہرہ قوتوں نے باقاعدہ خود کو ایک ایسے قاتل کی ان آفیشل جانشین سمجھ لیا ہے جس نے گورنر پنجاب کی حفاظت کا فرض نبھاتے انہیں قتل کر دیا۔ کان کو جس طرف سے بھی پکڑ لیں، بات کی بنیاد تبدیل نہیں ہوتی۔ پہلے ڈی چوک میں چپل میزائل کی ایجاد کے بعد ہلکی آنچ پر ممتاز قادری فیکٹر پر کام کرتے پرائم ٹائم شوز میں مخصوص بیانیے کو نارمل بنایا گیا اور پھر تین سالہ محنت کے بعد انتخابی اصلاحات بل میں ختمِ نبوت کے حوالے سے شق میں حلف اور اقرار کے مفہوم کو ایسے زاویے پر استعمال کیا گیا جس کا تیزابی زہر سیاسی جماعتوں، مسلکی پریشر گروپ اور سیاسی یتیموں نے نیوز چینلز اور صحافتی پیراٹروپرز کی مدد سے سارے نظام پر چھڑکنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔
پہلے سولہ رکنی ذیلی کمیٹی اور پھر 34 رکنی پارلیمانی کمیٹی، جس میں سب سیاسی جماعتوں کے اراکین شامل تھے، نے جس ڈرافٹ پر کام کیا اور ان کمیٹوں کے 125 اجلاس ہوئے وہاں کسی کو کاغذات نامزدگی میں لفظ حلف کو اقرار سے بدلنے کی "گستاخی" دکھائی دی یا نہیں اس بحث کی بجائے یہ نکتہ قابل غور ہونا چاہیے کہ جس شیخ رشید نے قومی اسمبلی میں چیخ چیخ کر الاؤ دہکایا، وہ اس کمیٹی کا حصہ تھا جس نے ڈرافٹ تیار کیا۔ اور یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ ہوں یا تحریکِ انصاف کے ڈاکٹر علوی، شیریں مزاری اور شبلی فراز جیسے نام ہوں، سب ہی ان اجلاسوں میں بیٹھتے رہے ہیں اور اس شق پر کسی نے بھی اعتراض ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا. بس آخری وقت کسی کو بھی نااہل شخص کی پارٹی صدارت والی شق کے علاوہ کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ یہ سرکاری بل نہیں بلکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ تھی جس میں لفظ اقرار کی تبدیلی کے بارے میں سینیٹ میں نشاندہی ہونے پر حکومتی جماعت نے بحالی کا کہا تو انہی جماعتوں نے ساتھ نہیں دیا جو آج اپنے سیاسی جلسوں، پوسٹرز اور بینرز میں اس پر سیاست کر رہے ہیں۔
یہ بات تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ جب ایک مسلکی گروہ نے پنجاب سے چل کر دارالحکومت کی جانب لشکر کشی کی تو حکومتِ پنجاب نے شرپسندوں کو نہیں روکا اور اسی طرح جب جڑواں شہروں کو یرغمال بنا لیا گیا تو انتخابی اصلاحات بل پاس کرنے والی جماعتوں نے اس بلیک میلر کا ساتھ دیا۔ حکومت یہ حقیقت عام کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے کہ جس شِق کو غلیظ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اس کو ڈرافٹ کرنے سے لے کر دونوں ایوانوں سے منظور ہونے تک سب جماعتیں شامل تھیں۔
ساجد میر کے الزامات کے بدلے ہمارے آرمی چیف کو عمرہ کی تصاویر پبلک کروانا پڑیں
حالات اس نہج پر لائے گئے کہ ایک ذہین اور سلجھا ہوا وزیر قانون اپنے بہترین دماغ کے ساتھ استعفا دے کر اناؤں کی تسکین کے لئے قربان کر دیا گیا۔ کیا ہم بھول جائیں کہ شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کیا بیان جاری کیا گیا؟ کیا ہم یہ بھی بھول جائیں کہ خادم رضوی نے کہا "انہوں نے کہا مانگو کیا مانگتے ہو، سب ملے گا"؟ اور ہم یہ بھی بھول جائیں کہ شرپسندوں کو ان کے تخریبی عزائم کی سزا دینے کی بجائے ریاست نے ایک میجر جنرل کی وساطت سے معاہدہ کر کے اٹھایا؟ عوام یہ بھی بھول جائیں کہ بلوائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن رکوا کر مہلت دِلوانے کی سازش کرنے والے گدی نشینوں نے ختمِ نبوت کانفرنس میں ایک سیاستدان کو اپنا پلیٹ فارم مہیا کیا؟ ساجد میر کے الزامات کے بدلے ہمارے آرمی چیف کو عمرہ اور محفل میلاد کی تصاویر اسی طرح پبلک کروانا پڑیں جیسے زاہد حامد صاحب مستعفی ہونے کے چند گھنٹوں بعد عمرے کی سعادت حاصل کرتے دکھائی دیے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سینیٹر ساجد میر کے خلاف کوئی ایسی کارروائی نہیں کی جو باقیوں کے لئے سبق ہوتا، خیر انہوں نے تو قومی اسمبلی کے فلور سے لے کر سیڑھیوں تک قاتلوں کی گلوریفیکیشن کرتے کیپٹن صفدر تک کا منہ بند نہیں کروایا۔
https://www.youtube.com/watch?v=TBSjbpoXObw
پنجاب حکومت نے خود کو لجپال کہلواتے پیر سیالوی کے گھٹنے چھونے کے لئے اپنا نمائندہ تک بھیجا، وہ تو رانا ثناء اللہ ڈٹ گئے ورنہ ان کے ایمان کا امتحان اسی پیر کی بنائی کمیٹی میں ہونے کی یقین دہانی تک کروا دی گئی تھی۔ عوام کو ریاست اور اس کے اداروں نے ہر قدم پر بیچ کر اگلی نسلوں کے لئے بربادی خریدنے میں گنجائش نہیں چھوڑی۔ اور اب رہی سہی کسر عام انتخابات کے لئے الیکشن مہم میں پوری کی جا رہی ہے۔
"مجاہد اعظم" اور "محافظ ختم نبوت"
یہ جس قسم کے "مجاہد اعظم" اور "محافظ ختم نبوت" آج کل پوسٹرز پر دکھائی دے رہے ہیں ان کے ماضی اور حال کا خاکہ ذہن میں لاتے ہی منافقین پر صرف ہنسا جا سکتا ہے یا دل جلایا جا سکتا ہے۔ جو کچھ فسادی تماشہ عام انتخابات میں چل رہا ہے میں این۔اے 120 کے ضمنی انتخاب میں اس کی ریہرسل کی چشم دید گواہ ہوں۔
کشمیر جہاد کے تایا ابو اور فاتح فیض آباد
ٹیمپل روڈ پر دو نو وارد جماعتیں، جن میں سے ایک تو کشمیر جہاد کے تایا ابو ہیں اور دوسرے فاتحین فیض آباد، ساؤنڈ سسٹم پر اشتعال انگیزی، مذہبی منافرت، مسلکی تعصبات اور شر انگیزی پھیلاتی رہیں جبکہ ہمارے وہ تمام ریاستی ادارے کان لپیٹے انجان بنے رہے جو سوشل میڈیا صارفین کو ہراساں کرنا "پنجویں پیڑھی دی دُگل جنگ" گردانتے ہیں۔
چلیے یہ تو شدید سجے پاسے والے لوگ ہیں مجھے، محترمہ یاسمین راشد صاحبہ کے فتنہ پرور پوسٹرز بھی بھولے نہیں ہیں جن میں مذہب کارڈ اور قرآنی آیات کے سہارے فریقِ مخالف کو ہی نہیں بلکہ انہیں ووٹ دینے والوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی دھمکی لگائی گئی تھی۔
یہ سب ریہرسل تھی جس کو عوام کے لئے روزمرہ معمول کا حصہ بنوایا گیا اور اب اس حالیہ ڈرامے کا ڈراپ سین 25 جولائی کی رات کو ہی دیکھنے کو ملے گا۔ ان دونوں مراحل کے درمیان میں کچھ ہفتے قبل سیالکوٹ میں احمدی عبادت گاہ پر حملہ آور جتھے میں شامل چند چہروں کو یا ان کے بھائیوں کو ایک ہی پارٹی نے ٹکٹوں سے نوازا ہے جبکہ "تاریخی خطبہ" دینے والے صاحب آزاد کشمیر انتخابات میں اسی جماعت کے امیدوار بھی رہ چکے ہیں۔
اس روز صاحبِ عقل و دانش یہ نکتہ بیان کر چکے ہیں کہ سب بدمعاشی مخصوص ووٹ بینک سمیٹنے کے لئے کروائی گئی۔ حاصل وصول کچھ بھی ہو لیکن مایوسی اور گھٹن زدہ تیزابی مستقبل کی آبیاری پر اگر عوام اس دفعہ خاموش رہے تو سب کے لئے سلمان تاثیر اور مشال خان انجام کے دروازے کھل جائیں گے۔
مصنفہ مختلف سوشل میڈیا پر سیٹیزن جرنلزم کے لئے معروف ہیں اور مختلف ویب سائٹس کے لئے لکھتی رہی ہیں۔