شہنشاہ خطابت علامہ طالب جوہری کون تھے؟

شہنشاہ خطابت علامہ طالب جوہری کون تھے؟
ممتاز عالم، ذاکر اور مبلغ علامہ طالب جوہری گذشتہ روز 81 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق انہیں دل کا عارضہ لاحق تھا جو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔ طالب جوہری اہل تشیع مکتبہ فکر کے مفسر و عالم تھے۔ علامہ طالب جوہری کی رحلت پر ملک کے ہر طبقہ سے آہِ افسوس بلندی ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا تو مذہبی حلقوں میں اہل سنت سے بھی بے پناہ افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گیا جب کہ ان کے ناظرین اور سامعین بھی بجھ کر رہ گئے۔

پاکستانیوں کی نوجوان نسل کے لئے پی ٹی و ی پر دس محرم الحرام کو مجلس شام غریباں بپا کرنے کی شناخت کے حامل طالب جوہری 27 اگست 1939 کو پٹنا، بہار، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مذہبی عالم، شاعر، فلسفی اور تاریخ دان بھی تھے۔ انہوں نے مذہب کی اعلیٰ تعلیم نجف سے حاصل کی جہاں انہیں فقہ جعفریہ کے نامور علما، خطبا اور مبلغین کی صحبت نصیب ہوئی جن میں آیت اللہ خوئی جیسے زعما بھی شامل ہیں۔ ان کے اساتذہ میں باقر الصدر بھی شامل ہیں۔ اہل تشیع کے با اثر مراجع بھی طالب جوہری کے ہم جماعت یا پھر مدرسے کے ساتھی رہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق انہوں نے آیت اللہ اعظمی سید ابوالقاسم الخوئی کی شاگردی میں مذہبی تعلیمات حاصل کیں۔ وہ آیت اللہ العظمی سید سیستانی کے ہم جماعت تھے۔ معروف شیعہ سکالر علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی ان کے ہم جماعت رہے۔ علامہ طالب جوہری باکمال مصنف بھی تھے۔ اہل سنت کے ہاں بھی ان کے کام کی تعظیم ہے اور ان کے حوالہ جات کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ ایک متوازن عالم کے طور پر جانے جانے والے طالب جوہری نے علامات ظہور مہدی کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو کہ مذہبی تشبیہات و استعاروں کی تشریحات میں معرکتہ الارا کتاب ثابت ہوئی۔ لیکن ان کی پہچان بننے والی تصنیف حدیث کربلا رہی جو کہ آج بھی اسلام کے تمام مکاتب فکر کے ہاں واقعات کربلا سے متعلق مستند ترین کتابوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

ان کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ علامہ کچھ عرصہ سے شدید علیل تھے جب کہ گذشتہ برس اکتوبر، نومبر میں انہیں طبعیت ناساز ہونے کی وجہ سے اسپتال میں بھی داخل کرایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب سے چھ سال قبل جولائی 2014 میں کراچی میں نامعلوم حملہ آوروں نے علامہ طالب جوہری کے داماد مبارک رضا کاظمی ایڈووکیٹ کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا جس کا صدمہ علامہ طالب جوہری کی صحت پر گراں گزرا اور وہ خراب ہوتی چلی گئی۔ عالم دین علامہ مصطفیٰ خان جوہر جو کہ خود بھی ایک معروف عالم دین تھے، علامہ طالب جوہری کے والد تھے۔ انہوں نے مذہبی تعلیمات سے شغف اپنے گھر سے پایا جب کہ ذوق خطابت بھی انہوں نے موروثیت میں ہی پایا تھا۔ وہ طویل عرصہ سے پی ٹی وی پر مجالس عزا برپا کر رہے تھے تاہم مجلس شام غریباں میں ان کا خطابت کا پرسوز مگر منفر د انداز ہر دیکھنے اور سننے والے کے لئے غم حسین رضی اللہ عنہہ کی یاد تازہ کرا دیتا۔ 80 اور 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والی آج کی نوجوان نسل، خصوصاً اہلسنت سے تعلق رکھنے والوں کے لئے محرم الحرام کا مذہبی حوالہ علامہ طالب جوہری کے بغیر ادھورا ہے۔ اسلامی علوم، ابلاغ اور فلسفہ کا یہ عظیم باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔