وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ صوبے ان سے مشورہ کرتے تو وہ کبھی لاک ڈاؤن نہ ہونے دیتے اور یہ کہ ان کو اب تک سمجھ نہیں آئی کہ چھابڑی والوں کو کیوں بند کر دیا گیا.
اس سے پہلے وہ متعدد مواقع پر لاک ڈاؤن کے خلاف بات کر چکے ہیں حالانکہ 3 اپریل 2020 کو میڈیا اینکرز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف لاک ڈاؤن کو 'ہمارا' لاک ڈاؤن کہا تھا بلکہ اس کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کا لاک ڈاؤن کامیاب ہے؛ یہاں تک کہ کامیابی کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کامیاب اس لئے ہے کیونکہ ہم نے مکمل لاک ڈاؤن کیا ہے.
اب ان کا کہنا کہ چھابڑی والوں کو بند کرنا ان کی سمجھ میں نہیں انتہائی حیرت انگیز ہے جب کہ مکمل لاک ڈاؤن کی تعریف انہوں نے ہی کی تھی.
ایک اور سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار میں سے دو صوبوں میں تو ان کی اپنی حلومت ہے، تیسرے میں وہ حکومتی اتحادی ہیں. تو پھر صوبوں نے ان سے ان کی رائے بطور وزیر اعظم نہ سہی، بطور پارٹی سربراہ بھی لینا مناسب نہیں سمجھی؟
ایک اور سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ جب صوبے اس وقت لاک ڈاؤن کا فیصلہ خود سے کر رہے تھے تو اب کیوں عثمان بزدار لاہور میں تیزی سے پھیلتے کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے وزیر اعظم کو خط لکھ کر ان سے شہر میں لاک ڈاؤن کی اجازت طلب کر رہے ہیں؟ اگر وہ تب لاک ڈاؤن، وہ بھی پورے صوبے کیں، کرنے میں خود مختار تھے تو اب کیا وجہ ہے کہ ان کی آزادی کو سلب کر لیا گیا ہے؟
یاد رہے کہ وزیر اعظم نے یہاں خصوصی طور پر سندھ اور لاڑکانہ کا ذکر کیا ہے؛ جب کہ ان کے اپنے وزرا بارہا تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کرونا وائرس کے مقابلے کی تلقین کرتے ہیں جن میں وزیر اطلاعات شبلی فراز بھی شامل ہیں جو اپنے اس عہدے کی موجودگی میں حکومت کے ترجمان کی حیثیت رکھتے ہیں. لیکن وزیر اعظم صاحب تو صوبے کی حکومت کی جانب سے اپنے استحقاق پر عمل کرنے کو بھی کھلے عان تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں.
یاد رہے کہ 23 مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران اعلان کیا تھا کہ افواج پاکستان لاک ڈاؤن کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں. اس کے فوراً بعد ہی چاروں صوبوں کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا.