مہلک کرونا وائرس اور ہماری قومی غیر سنجیدگی

مہلک کرونا وائرس اور ہماری قومی غیر سنجیدگی
دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے ایک خاص قسم کی ہلاکت خیز وبا " کرونا وائرس" کے بارے میں اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ وائرس پھیل گیا اور لوگ اس بیماری سے ہلاک ہونے لگے۔ چین بھر میں ہلاکتوں میں اضافہ ہونے لگا اور وائرس طول عرض میں پھیلنے لگا تو چین میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ لوگوں کو غیر ضروری نقل و حرکت کرنے سے منع کردیا گیا۔

چینی حکومت اور قوم نے ہمت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور فورا "نوول کرونا وائرس" کی روک تھام میں مصروف عمل ہو گئے۔ متاثرہ افراد کو قرنطینہ کر دیا گیا۔ جبکہ ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور طلبہ وطالبات نے کرونا وائرس پر تحقیقات کرنے اور اس کی ویکسین بنانے کے لئے لیبارٹریز کا رخ کر لیا۔ چینی قوم نے اپنے حکومتی احکامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ذمہ داری اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ ہجوم اور بھیڑ کو ختم کر دیا، ماسک کا استعمال شروع کر دیا، غیر ضروری نقل و حرکت کو فورا ترک کر دیا اور اس بہادر اور ذمہ دار قوم نے دو ماہ کی مسلسل جدوجہد سے کرونا وائرس پر قابو پا لیا۔

چین کے بعد دوسرے نمبر پر اٹلی آتا ہے جسے کرونا وائرس سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ کرونا وائرس نے جب اٹلی کا رخ کیا تو انہوں نے اسے کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے کی بجائے اسے غیر سنجیدگی سے لیا اور اپنے معمول کے کام کاج میں بغیر حفاظتی اقدامات اٹھائے ہی مصروف عمل رہے۔ تین چار ہفتوں کے اندر ہی حالات خوفناک حد تک بدل گئے۔ اب اٹلی کرونا وائرس کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر 400 کے قریب ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا قرنطینہ اس وقت اٹلی ہے جہاں سخت حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوئے حکومت نے ملک کے ایک حصے یعنی شمالی اٹلی کو باقی ملک سے مکمل طور پر الگ کر دیا ہے۔ اور وہاں پر کرفیو نافذ ہے۔ میتوں کو دفن کرنے کی ذمہ داری فوجی بکتر بند گاڑیوں کے سپرد کردی گئی ہے۔

کرونا وائرس اس وقت عالمی وبا کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور پوری دنیا اس کی دہشت اور خوف میں مبتلا ہے۔ دنیا اس کی طرف مکمل متوجہ ہو چکی ہے۔ تمام ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں اور نقل وحرکت کو مکمل طور پر کنٹرول کر لیا گیا ہے۔ کرونا وائرس ہلاکت خیز بھی ہے اور تباہ کن بھی کیونکہ اس نے ہلاکتوں کے ساتھ دنیا کی معیشت کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ کاروباری زندگی اور اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان ہے۔ مالز، ہوٹلز اور ریستورانوں پر تالے پڑے ہیں۔ سیروسیاحت بند ہے، ایئرپورٹ خالی ہیں اور ایئرلائنز دیوالیہ ہو گئی ہیں۔

تاریخ انسانی میں پہلی بار خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو بند کرنے کا انتہائی مشکل فیصلہ بھی حالات کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کر لیا گیا ہے۔ الغرض پوری دنیا میں ہو کا عالم ہے اور سارے لوگ اپنا کام دھندا سمیٹ کر چپ چاپ گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز پاگل نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ اصل میں سیانے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں زندگی کاروبار اور باقی تمام معاملات سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔

پاکستان بھی کرونا وائرس کے متاثرین میں شامل ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ صورتحال کی سنگینی کا اپنی آنکھوں سے بغور مشاہدہ کر لینے کے باوجود ہمارا مسخرہ پن ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ تمام تر حکومتی احکامات اور محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی وارننگوں کو ہم اپنے کھلنڈرے پن کی نظر کر کے "کچھ نہیں ہوگا" اور "گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے" کے آسان کلیوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنے معاملات میں جوں کے توں مصروف ہیں۔

حکومت نے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کی ہیں تو ہم نے پکنک پوائنٹ، پارکس اور سیر گاہوں کا رخ کر لیا ہے۔ حکومت نے مالز اور شادی ہال میں بیٹھنے پر پابندی لگائی ہے تو ہم نے گھروں میں دعوتوں کا اہتمام کر لیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری ان سے گزارش ہے کہ صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لیں اور اب تھوڑا سا گھبرا لیں۔ " کرونا وائرس" انسان کے عمل تنفس پر حملہ کرتا ہے اور ابھی تک اس کی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ لہذا انسان کی زندگی اور موت کا دارومدار مکمل طور پر وینٹی لیٹر پر ہوتا ہے جب تک وینٹی لیٹر چلتا رہے گا سانس لینے میں آسانی ہو گی اور جوں ہی بند ہوا تو آپ کی زندگی کا چراغ بھی ساتھ ہی گل۔

واضح رہے کہ پورے پاکستان میں وینٹی لیٹرز کی تعداد چند ہزار (میڈیا رپورٹس کے مطابق پچیس سو) ہے جو ہماری آبادی کے تناسب سے 0.001 فیصد بنتی ہے۔ یعنی جس مرض سے ہم نے بالکل بھی گھبرانا نہیں ہے اس کی روک تھام کے لیے ہمارے پاس ہماری آبادی کے تناسب کا آدھا فیصد حفاظتی سامان موجود ہے۔ جی ہاں جناب اب تھوڑا سا گھبرا لیں کیونکہ اگر آپ نے اس وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر نہ اپنائیں تو خدا نخواستہ اس کے لاحق ہوجانے پر آپ کو بچانے کے لئے آپ کی حکومت کچھ نہیں کر پائے گی اور آپ کے اپنے بھی بے بس و مجبور نظر آئیں گے۔ آپ لاکھ پتی ہیں، کروڑ پتی ہیں یا ارب پتی ہیں اگر وینٹی لیٹر آپ کو میسر نہ آیا تو آپ کی جان کو خطرہ ہوگا۔

میں اپنے ملک کی معاشی صورتحال سے بھی آگاہ ہوں اور جانتا ہوں کہ ہمارا ملک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہماری معیشت چائنہ، اٹلی، امریکہ، برطانیہ اور سپین کی طرح طاقتور نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کے یہاں مزدور دو دن دیہاڑی پر نہ جائے تو اس کا مطلب دو دن کا فاقہ ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر ملازم کام پر نہیں جائے گا تو اس کا مالک اسے تنخواہ نہیں دے گا۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ جو ہمارے سامنے آیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ زندہ رہنا پیٹ بھر کے کھانے، خوشی غمی میں شریک ہونے اور پکنک منانے سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ میری اپنی قوم سے دست بستہ گزارش ہے کہ یہ وقت سنجیدگی اور ملی وحدت کا عملی مظاہرہ کرنے کا ہے۔

کرونا وائرس سے متاثر ہو کر ہمیں سب سے بڑا چیلنج خوراک کی قلت کا ہو گا، اس لئے اپنے اردگرد ضرورت مند افراد کو دیکھیں اور ان کے گھر ضروری اشیائے خوردونوش پہنچا دیں۔ حکومتی احکامات اور محکمہ صحت کے بتائے گئے تمام حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل پیرا ہو جائیں۔ گھروں میں خود کو محفوظ کر لیں۔ باہر ہرگز نہ نکلیں۔ سرجیکل ماسک کا استعمال کریں۔ وٹامن سی والی اشیا مالٹا وغیرہ کا استعمال کریں۔ قوت مدافعت بڑھانے والی غذائیں استعمال کریں۔ اپنے ہاتھوں کو باربار دھوئیں۔ ہجوم اور اجتماعات کا مکمل بائیکاٹ کر کے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔

میری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزارش ہے کہ صورتحال کی سنگینی کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور اگر عوام حکومتی احکامات پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کر کے انہیں حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اللہ پاک ہمارے وطن کو، ہمیں اور ہمارے پیاروں کو اس مہلک وبا سے محفوظ فرمائے۔ اللہ پاک پاکستان پر اپنا خاص کرم و فضل فرما دے اور یہاں جلد نظام زندگی پھر سے معمول پر آجائے۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے کھلا رہے

صدیوں یہاں خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو