یقینا ہر فریق کو بہت کچھ سوچنا ہے۔ اگر مسلم لیگ ن اسٹبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت کا نام لے کر دوبارہ حملے شروع کردیتی ہے تو لازمی طور بے چینی محسوس کرے گی۔ اپنے گھر کی طرف بھی نگاہ جائے گی۔ عمران خان سے کہا جائے گا کہ حزب اختلاف کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے گڈ گورننس پر توجہ دیں۔ اس کے نتیجے میں اختلافات کی لکیر گہری ہوگی۔ آصف زرداری بھی اتحادیوں سے الگ ہوکر دشمنوں کے نشانے پر آنا پسند نہیں کریں گے۔
اس لیے پی ڈی ایم کو پہنچنے والی زک کے باوجود گیم آن ہے۔