چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال نے کہا ہے کہ جمہوری عمل شفاف ہوناچاہیے۔ اگر شفاف انتخابات میں بدنیتی ہوگی تو ہم مداخلت کریں گے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے درخواست واپس لینے پر غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے خلاف اپیل خارج کردی۔
دورانِ سماعت وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نگران حکومت کے قیام کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہوچکا ہے۔صاف شفاف انتخابات ہماری ذمہ داری ہے۔بیوروکریسی میں تبادلے کرنا بھی الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے نگران حکومت کو سی سی پی او لاہور کے تبادلے کی زبانی منظوری 23جنوری کو دی تھی۔نگران حکومت نے الیکشن کی شفافیت کے لیے تمام بیوروکریسی کو تبدیل کرنے کا پالیسی فیصلہ کیا ۔الیکٹورل باڈی نے نگران حکومت کے اس فیصلے کی منظوری دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ثابت ہوگیا کہ نگران حکومت الیکشن کمیشن کی اجازت سے تبادلے کرتی ہے اور الیکشن کمیشن خود بھی نگران حکومت کو تبادلوں کے احکامات دے سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں برابری کا موقع ملنا چاہیے تاہم الیکشن کمیشن کو نگران حکومت کو تبادلوں کا کھلا اختیار نہیں دینا چاہیے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ بعض اوقات سپریم کورٹ کی باتوں کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے ایک کیس میں کہا تھا کہ 1988 میں ایک ایماندار وزیراعظم تھا، ہماری اس بات کو پارلیمنٹ نے غلط سمجھا۔
عدالت نے وضاحت کی کہ ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ آج تک صرف ایک ہی ایماندار وزیراعظم آیا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے جج صاحبان کی آڈیو لیکس سے متعلق برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے جسے آڈیوٹیپس کے ذریعے بدنام کیا جارہاہے۔ آئینی اداروں کو بدنام کرنے والی ان آڈیوٹیپس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صبر، درگزر سے کام لیکر آئینی ادارے کا تحفظ کریں گے۔ آئینی اداروں کو اپنے فیصلوں میں تحفظ دیا ہے۔عدلیہ پر بھی حملے ہورہے ہیں۔عدلیہ کا بھی تحفظ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جسے تحفظ فراہم کریں گے۔جمہوری عمل شفاف ہوناچاہیے۔ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت اختیارات حاصل ہیں لیکن اگرشفاف انتخابات میں بدنیتی ہوگی تومداخلت کریں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کی اپیل واپس لینے پر خارج کردی۔
واضح رہے کہ 16 فروری کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور سابق وزیراعلٰی چوہدری پرویزالٰہی کی مبینہ گفتگو کی آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق سپریم کورٹ جج کے ساتھ ان کی مبینہ بات چیت منظرعام پر آئی تھی۔
چوہدری پرویز الٰہی کی تین آڈیو کلپس سوشل میڈیا پر لیک ہوئے تھے جس کے پہلے حصے میں مبینہ طور پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو محمد خان کا کیس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں لگوانے کی ہدایت دیتے ہوئے سنا جاسکتا۔ آڈیو میں سابق وزیراعلیٰ ہدایت کر رہے ہیں کہ کوشش کرکے کیس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں ہی لگوایا جائے۔کیونکہ وہ دبنگ ہیں۔
دوسری آڈیو میں پرویز الٰہی صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کو یہی ہدایت دے رہے ہیں کہ محمد خان کا کیس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں لگوایا جائے۔عابد زبیری نے پوچھا کہ کیا کیس کی فائل تیار ہے تو پرویز الٰہی نے کہاکہ وہ جوجا صاحب سےپوچھیں ۔ پرویز الٰہی نے عابد زبیری سے کہا کہ یہ بات کسی کو بتانی نہیں ہے ۔ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔عابد زبیری نے پرویزالہیٰ کو یاد دلایا کہ مظاہر علی نقوی کی عدالت میں سی سی پی او غلام محمد ڈوگر کا کیس بھی لگا ہوا ہے۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ میں بات کرتا ہوں۔
جبکہ تیسری آڈیو میں پرویز الٰہی اورجج مظاہرعلی نقوی کی مبینہ گفتگو ہے۔ پرویز الٰہی نےان سے پوچھا کہ کیا محمد خان آپ کےپاس ہے جس پر مظاہر علی نقوی نےکہا کہ جی میرے پاس ہے۔ پرویز الٰہی نے کہاکہ میں آرہا ہوں بغیر کسی پروٹوکول کے۔مظاہرنقوی نے کہاکہ آنے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن پرویز الٰہی نے کہاکہ میں قریب پہنچ چکا ہوں بس سلام کرکے چلاجاؤں گا۔
17 فروری کو سپریم کورٹ بنچ کی جانب سے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی بحالی کا حکم سنایا گیا تھا۔