31 سال قبل پاکستان کا ایسا جہاز حادثہ جس کے ملبے اور بد قسمت مسافروں کی آج بھی تلاش جاری ہے

31 سال قبل پاکستان کا ایسا جہاز حادثہ جس کے ملبے اور بد قسمت مسافروں کی آج بھی تلاش جاری ہے
بین الاقوامی فضائی حادثوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والی تنظیم 'ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس' کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں   80 سے زیادہ ایسے حادثے ہوئے ہیں جن میں 1000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ آج پاکستان میں کراچی ائیر پورٹ کے قریب لاہور سے آنے والا پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا ہے طیارے میں 100 سے زائد افراد سوار تھے۔

 

لیکن پاکستان کے فضائی حادثوں کی تاریخ میں ایک پر اسرار حادثہ بھی ہے جس کا معاملہ 31 سال سے غیر یقینی کے پھندے پر جھول رہا ہے۔ یہ طیارہ 31 سال پہلے رن وے سے اڑان بھرتے ہی غائب ہوا تھا۔ آج تک اس کا سراغ ملا نہ اس پر سوار بد قسمت مسافروں کا۔

 یہ 25 اگست 1989 کا روشن دن تھا۔  پی آئی اے کے فوکر طیارے PK-404 نے  گلگت ائیرپورٹ سے  سات بج کر پینتیس منٹ پر اڑان بھری۔  طیارے میں بچوں عورتوں اور مردوں سمیت 54 افراد سوار تھے اور ان میں سے اکثر گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر واپسی کی طرف گامزن تھے۔ اس بد قسمت فلائٹ کو اسلام آباد ائیرپورٹ اترنا تھا  تاہم کچھ ہی دیر میں  یہ طیارہ  گلگت میں ہی نانگا پربت  کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو گیا ۔  کنٹرول ٹاور کو اسکے پائلٹ کی جانب سے آخری ریڈیو کال 7 بج کر 40  منٹ پر کی گئی تھی اور یہ ایک معمول کے مطابق کال تھی۔  31 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکی ہیں ۔ جہاز کی تلاش میں پاک فوج اور حکومتوں کی جانب سے 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے ۔

طیاروں کے ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا۔

31 سال گزرنے کے بعد بھی یہ راز معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا وہ طیارہ کہاں گیا۔ اس حادثے میں اپنے بیوی بچے کھو دینے والے شخص عارف حسین بتاتے ہیں کہ 31 سال سے اس حادثے کا کوئی سراغ نہیں۔ میں نے یقین کر لیا ہے کہ وہ کبھی نہیں آئیں گے۔ لیکن دل کئی بار بے تاب ہوجاتا ہے۔ ہر سال 25 اگست کا یہ دن میرے زخم کرید جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کی پرواز کوئی اور تھی تاہم موقع پر انہوں نے اس بد قسمت پرواز میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ انکے بیوی بچوں کے ساتھ انکے چچا تھے جو نئے نئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔

اسی طرح کی ایک متاثرہ خاتون ماریہ جبین  ہیں جنہوں نے اپنے داد دادی کو کھویا۔ یہ سب متاثرین کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس طیارے کے ساتھ کیا ہوا۔ ایک سب سے زیادہ سنائی دینے والا مفروضہ یہ ہے کہ طیارے نے ایل او سی کی خلاف ورزی کی جس پر بھارت نے اسے مار گرایا۔ تاہم اس کے بھی شواہد نہیں ملے۔

وہ کہتے ہیں کہ شروع میں تو حکومتوں نے مشنز بھیجے تاہم اب لگتا ہے کہ یہ فائل مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔ 31 سال سے لا حاصل انتظار کرتے اس بدقسمت پرواز کے مسافروں کے لواحقین چاہتے ہیں کہ اس کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکے تاکہ اور کچھ نہیں تو وہ خود کو تسلی دے سکیں کہ انکے پیارے اگلے جہان میں پہنچ چکے ہیں جہاں کم از کم ان سے ملاقات کا ایک وقت معین ہے۔