معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ شہری باریکی میں نہ جائیں، اللہ کا نام لے کر ویکسین لگوائیں، زیادہ لوگوں کو ویکسین لگنے کے ساتھ زندگی معمول پر آجائے گی، آبادی کا بڑا حصہ کور کیے بغیر نارمل زندگی کی طرف نہیں آسکیں گے۔ حکومت کی جانب سے جن کمپنیوں کی کورونا ویکسین منظورکی گئی ہے وہ بہترین ہیں۔
شہری باریکی میں نہ جائیں، اللہ کا نام لے کر ویکسین لگوائیں، نارمل زندگی کی طرف آنے کیلئے جلدی بڑی تعداد کو ویکسین لگانا ہوگی۔ جب تک آبادی کے بڑے حصے کو ویکسین نہیں لگائی جاتی تب تک نارمل زندگی کی طرف نہیں آسکیں گے، ہدف پورا کرنے کیلئے یومیہ پانچ لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگانا ہوگی۔دوسری جانب ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری یا تارکین وطن جنہوں نے یا تو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) یا سرکاری مہاجرین کی حیثیت حاصل کی ہے وہ ویکسین حاصل کرسکتے ہیں۔
پاکستان نے اب تک تقریباً 30 لاکھ افراد کو ویکسین لگائے ہیں۔ پاکستان میں رہائش پذیر 15 لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ مہاجرین، خاص طور پر افغان مہاجرین شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین سے محروم رہیں گے۔اس کے علاوہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے حالیہ برسوں میں ہزاروں شناختی کارڈ کو مختلف وجوہات کی بنا پر منسوخ کردیا گیا ہے۔
پاکستان میں ترکی میں شامی شہریوں کے بعد دنیا کی دوسری بڑی مہاجر آبادی رکھتا ہے جہان تقریبا 28 لاکھ دستاویزی اور غیر دستاویزی افغان مہاجرین موجود ہیں۔پناہ گزینوں میں سے صرف نصف رجسٹرڈ ہیں باقی بغیر دستاویزات کے ساتھ زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہیں جو جنگ زدہ افغانستان سے قریب ہیں۔سندھ میں بھی تقریباً 5 لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق 2002 سے اب تک 38 لاکھ سے زائد مہاجرین افغانستان واپس جاچکے ہیں تاہم کئی تشدد، بے روزگاری اور تعلیم اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان واپس آگئے ہیں۔افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان اور بنیادی طور پر کراچی میں غیر رجسٹرڈ بنگالی، نیپالی اور روہنگیا تارکین وطن کی بڑی آبادی ہے۔