تم سے پہلے وہ جو ’ہر‘ شخص یہاں تخت نشیں تھا

تم سے پہلے وہ جو ’ہر‘ شخص یہاں تخت نشیں تھا
طاقت کا غرور انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔ ہم تو چھوٹے چھوٹے ملکوں کے باسی ہیں۔ کسی زمانے میں بادشاہوں، مہاراجوں اور فاتحین کی سلطنتیں تو میلوں کے رقبوں پر پھیلی ہوتی تھیں۔ فتوحات کے زمانوں میں وہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھا کرتے تھے۔ مخالفین پر ہاتھی دوڑانا، سر قلم کرنا، تخت کے لئے باپ بھائیوں کو بھی قتل کر دینا۔ یہ تمام باتیں ان کے لئے اتنی ہی عام تھیں جتنا ہمارے لئے ہاتھ پر بیٹھے مچھر کو مارنا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ بادشاہ کیا ہوئے؟ وہ فاتحین کہاں ہیں؟ اکثر کی توقبریں تک نامعلوم ہیں۔

وہ لوگ جو کچھ کرتے تھے وہ ان کے ادوار کی روایات تھیں۔ لیکن آج کا انسان تہذیب یافتہ ہے۔ وہ ان تمام حکمرانوں کے حالات سے واقف ہے۔ اس کے سامنے جنگ ہائے عظیم بھی ہیں، ہٹلر بھی ہے، سکندر بھی ہے۔ ساری تاریخ بازیچہ اطفال کی مانند سامنے بکھری پڑی ہے۔ لیکن یہی تہذیب یافتہ انسان کس قدر احمق ہے کہ ہر دور کے جابر کے احوال جاننے کے باوجود تاریخ کی غلطیاں دہراتا رہتا ہے۔

لمبی کہانی کو چھوٹا کرتے ہیں اور عزت مآب حضور عمران خان صاحب کی شعلہ بیانی کا ذکر کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب جب مبینہ طور پر الیکشن جیتے اور پہلی تقریر کی تو نقاد بھی داد دیے بنا نہ رہ سکے۔ انتہائی جامع، غیر روایتی اور بہترین تقریر تھی جس کا لب لباب تھا کہ عمران خان ذاتی مسائل اور لڑائی نہیں کریں گے۔ سیاسی مخالفت کا شکار کسی کو نہیں بنائیں گے وغیرہ۔ سب کو بہت خوشی ہوئی کہ بالآخر پاکستان کو وہ حکمران مل گیا جس پر ہم فخر کر سکیں گے۔ لیکن غریب کے خواب کہاں دیرپا ہوتے ہیں۔



تحریک انصاف کے آتے ہی سیاسی مخالفین کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ سچ جھوٹ کو ملا دیا گیا۔ جھوٹ تواتر سے بولا گیا۔ جان اللہ کو دینی ہے، جان اللہ کو دینی ہے بول بول کر عوام کی جان نکال دی گئی۔ مہنگائی آسمان پر چلی گئی، ادارے ویسے کے ویسے بلکہ بد تر ہو گئے۔ دنیا جہاں کے چور، بے ایمان، نکمے، فراڈی اور ٹھگ پھر سے حکومت میں آ گئے۔ بدتمیزی اور بدزبانی کی سیاست کا آغاز تو عمران خان نے کنٹینر سے ہی کر دیا تھا، لیکن ہم اس بات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی ہمارا وزیر اعظم کنٹینر پر کھڑا رہ جائے گا۔ صرف سیاسی مخالفت کا شکار کیا جاتا تو ہم یہ مان لیتے کہ یہ کام بھٹو نے بھی کیا، نواز شریف نے بھی کیا، بینظیر نے بھی کیا۔ آمروں کا تذکرہ ہی فضول ہے۔ وہ بخشی ہوئی روحیں ہیں۔ لیکن کیا زندگی اور موت کی سیاست کسی سیاسی جماعت نے کبھی کی؟ میری معلومات کے مطابق ایسا نہیں، پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ اس روش کا فیتہ تحریک انصاف نے ہی کاٹا ہے۔ کلثوم نواز صاحبہ بیمار ہوئیں تو ان کی بیماری کو ڈھونگ قرار دیا گیا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ ان کی موت سے تحریک انصاف کے کلیجے ٹھنڈے ہو گئے لیکن بدگوئی کرنے والے شرمندہ نہ ہوئے۔ قدوسی صاحب کی بیوہ ایک ڈرامہ تھا جس میں شکورن زوجہ قدوس کا ایک ڈائیلاگ مجھے بہت پسند تھا،

یا بے غیرتی ، تیرا ہی آسرا

یہ ڈائیلاگ میں نے ویسے ہی آپ لوگوں کو سنا دیا۔ اس کو میری تحریر کے ساتھ جوڑنا یا نہ جوڑنا آپ کی صوابدید پر ہے۔

خیر، پھر نواز شریف کی صحت خراب ہوئی۔ اسے بھی ڈرامہ قرار دیا گیا۔ تمام شعلہ بیان وزیراور مشیر اس ذمہ داری پر لگ گئے کہ جگتوں اور پھبتیوں کی مدد سے نواز شریف کو چاق و چوبند ثابت کیا جائے۔ لیکن پھر جب پانی ناک سے اوپر جانے لگا تو ہمارے ظل الٰہی نے اپنی وزیر صحت اوراپنے ذاتی ہسپتال کے معالجین کے ذریعے نواز شریف کی بیماری کے حقیقی ثابت ہو جانے پر عوام کو بتایا کہ ان کی انسانیت بیدار ہو چکی ہے لہٰذا وہ نواز شریف کو باہر جانے دے رہے ہیں لیکن بانڈز کی شرط ہمدردی کے دودھ میں مینگنیاں بن کر گر گئی۔ جن مینگنیوں کو حکومت کو ہی چننا پڑا۔

پھر ہمارے وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ ان کی کابینہ کی اکثریت تو نواز شریف کو باہر بھیجنے کے سخت خلاف تھی مگر ان کے رحم نے کابینہ کو آمادہ کر لیا۔ پھر مشیر اطلاعات نے بتایا کہ کابینہ کی اکثریت کا فیصلہ تھا کہ نواز شریف کو باہر بھیج دیا جائے۔ اللہ جانے ان دونو ں میں سے کس نے جان اللہ کو دینے کے خوف سے سچ بولا ہوگا۔



خیر، نواز شریف کی روانگی کا وقت آ گیا اور وہ لندن روانہ ہو گئے۔ وزیر اعظم نے اس دوران بلاول کی نقل اتار کر اتنی داد سمیٹی کہ لوگوں کو ٹماٹر کی قیمت بھول گئی۔ پھر ارشاد بھٹی سے ملاقات میں عمران خان نے بتایا کہ انہیں بہت غصہ تھا اس لئے انہوں نے ایسا کر دیا، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ چوبیس گھنٹے مشکل سے گزرے کہ وزیر اعظم نے نواز شریف کی بیماری کو پھر مشکوک قرار دے دیا۔

عمران خان صاحب، میری آپ سے درخواست ہے کہ اگر نواز شریف بیمار نہیں ہے، چور ہے، ڈاکو ہے، بے ایمان ہے، اور ان کی جانچ یاسمین راشد اور شوکت خانم کے ڈاکٹروں نے کی تھی، اور وزیر کے حاضر سروس رہتے ہوئے تحقیقات تو آپ کے بقول ممکن بھی نہیں تو، آپ ان معالجین اور یاسمین راشد سے فوری استعفا لیں اور اس معاملے کی شفاف تحقیقات کروائیں کہ ایک چور کیسے آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چلا گیا۔ کم از کم اندھیرے میں مزید تیر نہ چلائیں۔ محسوس اگر کریں تو آپ اپنی عزت گنوا رہے ہیں۔ نہ محسوس کریں تو۔۔۔۔۔۔۔ قدوسی صاحب کی بیوہ والا معاملہ ہے۔

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔