Get Alerts

خیبر پختونخوا: رواں ہفتے کا احوال (14 اکتوبر تا 20 اکتوبر)

خیبر پختونخوا: رواں ہفتے کا احوال (14 اکتوبر تا 20 اکتوبر)

40 ہزار خواتین کی سالانہ بریسٹ کینسر سے اموات


بیماری کی بروقت تشخیص ایک عورت کی جان بچا سکتی ہے، صحیح وجوہات جاننے کیلئے تحقیق جاری


بریسٹ کینسر عالمی سطح پر خواتین میں عام ہے۔ ایشیا میں پاکستان میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس بیماری کی صحیح وجوہات اب تک معلوم نہیں لیکن اس کے لئے ریسرچ جاری ہے۔ بیماری کی جلد تشخیص ایک عورت کی جان بچا سکتی ہے۔ ہر سال تقریباً 40 ہزار خواتین اس بیماری کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ اکتوبر کے مہینے کو اس بیماری کے بارے میں آگاہی اور بیداری کے لئے جانا جاتا ہے۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں پینک ٹی پارٹی کا اہتمام شوکت خانم میموریل ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کی جانب سے کیا گیا تاکہ خواتین میں اس جان لیوا بیماری کے متعلق آگہی پیدا کر سکے۔ شعبہ چشم کی پروفیسر سعدیہ سیٹھی بمع نرسنگ سٹاف نے اپنے طبی معائنے کرانے کا عہد کیا کہ وہ اپنے آپ کیلئے اس بیمارے کے بارے میں جاننے کیلئے پانچ منٹ ضرور نکالیں گی۔ بریسٹ کینسر کے بارے میں صوبائی سطح پر عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے سٹریم اور سوشل میڈیا پر خصوصی پروگرام کرانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔






ہری پور میں منشیات فروشوں کیخلاف خبروں کی اشاعت پر صحافی قتل


مقتول سہین خان ڈی پی او کو دھمکیوں کے خلاف درخواست دے کر واپس آ رہا تھا کہ قتل کر دیا گیا


منشیات کیخلاف خبروں کی اشاعت پر مقامی صحافی سہیل خان کو منشیات فروشوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا جس کے خلاف صحافیوں نے شدید احتجاج کیا۔ سہیل خان کی قتل کے متعلق خبر میڈیا پر آنے کے بعد ملکی سطح پر صحافیوں نے اس موضوع پر بات کی اور اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر مشتاق غنی نے قتل کے متعلق ابتدائی رپورٹ ایوان میں پیش کی جس میں قتل کی وجوہات بتائی گئی تھیں اور قتل کی تحقیقات کے لئے بنائی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے بارے میں معلومات فراہم کردی گئیں۔ صحافی سہیل خان کے ٹو ٹی وی کے ساتھ منسلک تھے اور پھچلے پندرہ سالوں سے صحافت کے میدان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی پریس کلب کو کئی بار دھمکیاں ملی تھیں جس سے مقامی پولیس کو خبردار بھی کیا گیا تھا لیکن اس کے باجود پریس کلب کو کسی قسم کی سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔






غیر حاضر ٹیچرز سے 210 ملین روپے جرمانہ وصول، 440 بند سکولوں کو کھولا گیا


طلبہ کی غیر حاضری میں 20 فیصد اور ٹیچرز کی غیر حاضری میں 19 سے 12 فیصد تک کمی ہوئی ہے: پراجیکٹ ڈائریکٹر


پروجیکٹ ڈائریکٹر خودمختار نگران یونٹ (آئی ایم یو) عدیل شاہ نے کہا ہے کہ 2014 سے آئی ایم یو معرض وجود میں آیا جس سے ٹیچرز و دیگر عملہ کی غیر حاضری کو روکنے، بند سکولوں کی نشاندہی اور سکولوں میں سہولتیں مہیا کرنے میں مدد ملی۔ اس نظام سے 2014 سے اب تک بہت اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ 440 بند سکولوں کو کھولا گیا۔ عدیل شاہ کے مطابق بجلی کی عدم دستیابی 36 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد رہ گئی۔ اسی طرح پانی کی دستیابی 27 فیصد سے 12 فیصد، بیت الخلا کی کمی13  فیصد اور سکولوں کی چاردیواری کی کمی 17 فیصد سے 4 فیصد رہ گئی۔ 2014 سے اب تک غیر حاضر رہنے والے ٹیچرز سے 210 ملین روپے جرمانے کی صورت میں وصول کیے گئے۔ حال ہی میں اسی نظام کے تحت سکولوں کے سروے کے مطابق صرف دو ماہ ملین روپے جرمانے کی صورت میں وصول کیے گئے۔ اس نظام کے تحت عدم سہولیتوں کی دستیابی کا پلان برائے 2019-20، 2017-18 اور بجٹ تیار ہوتا ہے۔ ٹیچرز کی حوصلہ افرائی اسی نظام کی مرہون منت ہے۔ 2017-18 میں اچھی کارکردگی کے حامل ٹیچرز کو 220 ملین روپے دیے گئے۔






پشار ہائیکورٹ، فوجی عدالتوں سے سزائے موت اور عمر قید پانیوالے 74 ملزموں کی رہائی کا حکم


چیف جسٹس وقار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مختصر فیصلے میں ملزموں کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے سرائیں کالعدم کر دیں


پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سرائے موت اور عمر قید پانے والے 74 ملزموں کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس قلندر علی خان نے جرم ثابت نہ ہونے پر 74 ملزموں کی اپیلیں منظور کر لیں۔ ملزموں کے وکلا صاحبزادہ اسداللہ، اعجاز صافی، شبیرک یگیانی، ملک اجمل، عارف جان، سید مبشر شاہ اور فضل مولا ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ملزموں کیخلاف ملٹری کورٹ کا قانون لاگو نہیں کیونکہ ملزموں کو بہت پہلے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ قانون بعد میں لاگو ہوا۔ ملزموں کے خلاف ٹرائل بھی غیر منصفانہ ہوا ہے۔ اقبال جرم میں ابہام موجود ہے اور ملزموں کے خلاف مقدمے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ فوجی عدالتوں نے ان ملزموں کو دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہونے پر سزائیں سنای تھیں۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں سزائیں کالعدم کر دیں۔ تمام اپیلوں کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا۔






بی آر ٹی منصوبہ ایک سال بعد بھی مکمل نہ ہو سکا، لاگت میں 17 ارب کا اضافہ


افتتاح پرویز خٹک نے 19 اکتوبر کو کیا۔ ابتدائی لاگت 49.346 ارب روپے لگائی گئی، جو اب 66 ارب سے بھی بڑھ گئی ہے۔ حکومت نے منصوبہ6  ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم سال پورا ہونے پر بھی اس کی تعمیر میں مزید6  ماہ لگنے کا امکان بتایا گیا ہے اور کام کی رفتار بھی انتہائی سست روی کا شکار ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چھ مہینوں میں اس کو مکمل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ جو چمکنی سے حیات آباد پشاور تک 27 کلومیٹر طویل روٹ ہے اور اس پراجیکٹ کی وجہ سے جہاں عام لوگوں نے ایک سال کے دوران مختلف قسم کی مشکلات جھیلیں، وہیں تجارت پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوئے اور یونیورسٹی روڈ سمیت صدر بازار اور ہشتنگری میں موجود تاجروں کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ پشاور کی سڑکیں نہایت ہی تنگ ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہونا معمول بن چکا ہے۔