خیبر پختونخوا: رواں ہفتے کا احوال (30 ستمبر تا 6 اکتوبر)

خیبر پختونخوا: رواں ہفتے کا احوال (30 ستمبر تا 6 اکتوبر)

کرپشن اور شکایات، 8 ہزار افسروں و اہلکاروں کو سزائیں


پانچ سال میں 21 ڈی ایس پیس، 94 انسپکٹرز، 692 سب انسپکٹرز، 380 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، 1176 کانسٹیبلز کو سزائیں دی گئیں


محکمہ پولیس خیبر پختونخوا میں غفلت اور عوامی شکایات پر 8635 افسروں و اہلکاروں کو سزائیں دی گئی ہیں۔ آئی جی پی خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود کے حکم پر محکمہ پولیس خیبرپختونخوا میں جزا اور سزا کا عمل مزید مؤثر بنا دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں عوام کی جانب سے مختلف ذرائع بشمول پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے موصول شکایات پر ضروری کارروائی عمل میں لانے کے بعد گذشتہ پانچ سالوں کے دوران 21 ڈی ایس پیز کو مختلف سرائیں دی گئیں جن میں 13 ڈی ایس پیز کو ملازمت سے برخاست/ جبری ریٹائرڈ کر دیا گیا ہے جبکہ 86 کی تنزلی کی گئی۔ اسے کے ساتھ ساتھ 692 سب انسپکٹرز کو بھی مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں جن میں 55 کو ملازمت سے برخاستگی یا جبری ریٹائرمنٹ جبکہ 637 کی تنزلی کی گئی ہے۔ سزا کی فہرست میں 830 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز بھی شامل ہیں جن میں 52 کو ملازمت سے برخاست/ جبری ریٹائرد کیا گیا جبکہ 778 کی تنزلی کی گئی۔ اسی طرح 1176 ہیڈ کانسٹیبل بھی قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں جن میں 92 کو ملازمت سے برخاست/جبری ریٹائرڈ کیا گیا جبکہ 1084 کو تنزلی یا دیگر سزائیں دی گئی ہیں۔






پولیس ایکسس سروس، پشاور شکایات میں پہلے نمبر پر


سال رواں کے دوران صوبہ بھر میں مجموعی طور پر 5090 شکایات رجسٹر ہوئیں جس میں 3906 شکایات کا فوری ازالہ کیا گیا، دیگر پر بھی کام جاری ہے


اعداد و شمار کے مطابق پشاور میں مجموعی طور پر 1351، مردان 643، چارسدہ 290، نوشہرہ 256، صوابی 239، سوات 155، بونیر 66، دیر لوئر 78، دیر اپر 47، لکی مروت 255، ڈی آئی خان 220 سمیت کئی اور شہروں میں موصول شکایات کی تعداد 5090 ہے۔ محکمہ پولیس ایکسس سروس کا قیام ایک اہم قدم تصور کیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر پولیس ایکسس سروس کا قیام سنٹرل پولیس آفس پشاور کی سطح پر عمل میں لایا گیا، اس کی کامیابی اور بہترین نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا دائرہ کار صوبے کے تمام اضلاع تک بڑھا دیا گیا۔ اس وقت صوبے کے تمام اضلاع میں پولیس ایکسس سروس سرگرم عمل ہے، پولیس ایکسس سروس میں پیغام پہنچانے کے وہ تمام طریقے اور ذرائع ممکن بنا دیے گئے ہیں جن کے ذریعے صوبے کے کونے کونے سے شکایات کنندگان کی شکایات باآسانی وصول کی جا سکتی ہیں۔ صوبے کے تمام عوام اب ایس ایم ایس، فیکس، ای میل، ٹیلی فون (پولیس ٹو وکٹم سروس)، آن لائن ایف آئی آر، ڈاک اور پیغام رسانی کے دیگر ذرائع یا خود جا کر پولیس ایکسس سروس میں اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔






غیرقانونی مائننگ بلا امتیاز ختم کرنے کا فیصلہ


عوام کی طرف سے شعبے میں پائی جانے والی بےقاعدگیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے، صوبائی وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی


خیبر پختونخوا کے وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان نے کہا ہے کہ صوبے میں غیر قانونی مائننگ کو ختم کرنا اہم ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی شعبہ مدنیات پر کڑی نظر ہے، اس لئے اس کی بہتری کیلئے زیادہ محنت و توجہ سے کام کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان نے چترال مائنز ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفد کے شرکا نے صوبائی وزیر کو چترال میں غیر قانونی مائننگ کے بارے میں آگاہ کیا۔ وفد سے بات چیت کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ وہ بہت جلد چترال کا تفصیلی دورہ کریں گے اور وہاں پر ہونے والی غیر قانونی مائننگ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔






طفیلیوں کی حکومت کتنے دن چلے گی، اسٹیبلشمنٹ دوستی چاہتی ہے تو رویہ بدلے، مولانا فضل الرحمان


عمران خان کا ریاست مدینہ کی بات کرنا 'یہ منہ اور مسور کی دال' کے مصداق ہے، جوقوتیں انہیں لائی ہیں ان کو جلد احساس ہو جائے گا


جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کو مشترکہ اقدامات کیلئے اکٹھا کرنے کی غرض سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے گذشتہ روز اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے ساتھ ملاقات کی جس میں سیاسی صورتحال اور اپوزیشن کے مشترکہ لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ دونوں جانب سے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ مولانا فضل الر حمان نے اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کےاختیارات واپس لینے کی اجازت کوئی صوبہ نہیں دے گا۔ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے قومی سطح پر مسائل پیدا ہوں گے۔ سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ دنیا میں جغرافیائی تقسیم چاہتا ہے۔ پاکستان سخت دور سے گزر رہا ہے۔ طفیلیوں کی حکومت کتنے دنوں تک چلے گی؟ حکومت کے پاس واضح پالیسی نہ ہونے سے پاکستان بدترین بحران سے دوچار ہو گیا ہے۔ عمران خان کا ریاست مدینہ کی بات کرنا 'یہ منہ اور مسور کی دال' کے مترادف ہے۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے گلہ ہے، اگر ہم سے دوستی چاہتے ہیں تو رویہ تبدیل کریں۔






ذیابطیس روک تھام و آگہی اقدامات فنڈز کمی کے باعث فائلوں کی نذر، ٹاسک فورس بھی غیر فعال


ٹاسک فورس میں شامل بڑے تدریسی ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نے مرض کی روک تھام کیلئے سفارشات تیار کی تھیں، عمل نہ ہو سکا


صوبے میں محکمہ صحت کے مرض ذیابطیس کی روک تھام و آگہی کے حوالے سے اقدامات فنڈز کی کمی کے باعث محض فائلوں کی نذر ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ اس سلسلے میں بنائی گئی ٹاسک فوس بھی غیر فعال ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمے نے صوبے میں ذیابطیس کی روک تھام کیلئے ٹاسک فورس مکمل منصوبہ بندی کا کام سونپا تھا۔ مجوزہ ٹاسک فورس میں بڑے تدریسی ہسپتالوں کے انڈوکرانالوجسٹ ڈاکٹروں کو بھی شامل کیا گیا تھا جنہوں نے مکمل محنت سے مختلف سفارشات تیار کی تھیں جس میں صوبے کے تمام سکولوں میں طلبہ کے نصاب میں آخری صفحہ پر ذیابطیس مرض کی آگہی کے بارے میں مواد شامل کیا جاتا تھا۔