خیبر پختونخوا: رواں ہفتے کا احوال (28 اکتوبر تا 4 نومبر)

خیبر پختونخوا: رواں ہفتے کا احوال (28 اکتوبر تا 4 نومبر)

ضلعی انتظامیہ کی لاپرواہی، قدیم درخت کٹنے لگے


پلازوں کی تعمیر میں تیزی آنے کے بعد ایک درجن پلازوں پر تعمیراتی کام جاری، سو سالہ قدیم درخت کاٹا گیا

شہر میں کمرشل پلازوں کی تعمیر میں تیزی آنے کے بعد ایک درجن کے قریب پلازوں پر تعمیراتی کام جاری ہے جس کیلئے ٹاؤن ون پشاور کے تعمیراتی یونٹ سے نقشے منظور کروا لیے گئے۔ نشترآباد عبادت ہسپتال کے قریب بننے والے پلازہ کے وسط میں قدیم کھجور کا درخت بھی کاٹنے کا اندیشہ ہے جس کے لئے بی سی اے ٹاؤن ون سے رابطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ سکندرپورہ میں پیپل اور بڑ کے درخت بھی کاٹے گئے ہیں جن کی عمریں سو سے ایک سو پچاس سال بتائی جا رہی ہیں۔ حاصل کردہ معلومات کے مطابق شہر سے ابتک 80 کے قریب درخت کاٹے گئے ہیں لیکن ابھی تک محکمہ جنگلات کی جانب سی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بننے والے زیادہ تر پلازوں کے مالکان محکمہ جنگلات کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور وہ کچھ پیسوں کے عوض قدیمی درخت کاٹ رہے ہیں جس سے نہ صرف شہر کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ یہ شہر قدیمی درختوں سے محروم ہو رہا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے کلین ایند گرین پاکستان مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے لیکن قدیم درختوں کی بے دریغ کٹائی اس مہم کو بھی متاثر کر رہی ہے۔






سالانہ ترقیاتی پروگرام، سرکاری دستاویزات میں 13 ارب کے اضافے سے حجم 193 ارب ہو گیا


وزیر خزانہ نے بجٹ میں 180 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا تھا، چار ماہ میں محکمہ لیبر کوئی خرچ نہ کر سکا

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جاری مالی سال 2018-19 کیلئے دیے گئے 180 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے مقابلے میں محکمہ خزانہ کے ریکارڈ کے مطابق مذکورہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 193 ارب روپے ظاہر کیا گیا ہے جس میں چار ماہ کے دوران 31 ارب 49 کروڑ روپے جاری کیے گئے اور 16 ارب روپے کے اخراجات کیے گئے جو مجموعی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 34.8 فیصد حصہ بنتا ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے جاری مالی سال 2018-19 کیلئے 648 ارب روپے حجم کے بجٹ کے ساتھ 180 ارب روپے کا سالنہ ترقیاتی پروگرام بھی پیش کیا، تاہم محکمہ خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق سالانہ ترقیاتی پروگرام سے 31 ارب 49 کروڑ 99 لاکھ کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں جن میں 16 ارب 11 کروڑ 5 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق چار مہینوں کے دوران محکمہ زراعت میں 44 کروڑ، محکمہ مذہبی و اقلیتی امور 2 کروڑ 57 لاکھ، محکمہ مال 4 کروڑ 47 لاکھ، عمارات 12 کروڑ 95 لاکھ، ضلعی سالانہ ترقیاتی پروگرام 2 ارب 73 کروڑ روپے، نکاسی و فراہمی آب ایک ارب 8 کروڑ، ابتدائی و ثانوی تعلیم 97 کروڑ 98 لاکھ، انرجی اینڈ پاور ایک لاکھ، ماحولیات 22 لاکھ، خزانہ ایک کروڑ 85 لاکھ، خوراک 6 کروڑ 31 لاکھ، جنگلات 37 کروڑ 91 لاکھ، صحت ایک ارب 52 لاکھ خرچ کیے گئے۔






خیبر پختونخوا خزانے پر بوجھ، 978 سرکاری سکول بند کرنے کا فیصلہ


اساتذہ سمیت 3343 ملازمین پر تنخواہوں کی مد میں سالانہ ایک ارب 43 کروڑ، تعمیر پر 6 ارب 26 کروڑ 70 لاکھ کے اخراجات

خیبر پختونخوا میں 978 سرکاری سکولز اور ان میں زیر تعلیم 19598 طلبہ و طالبات سرکاری خزانے پر بوجھ بننے لگے ہیں۔ ان سکولوں میں اساتذہ سمیت 3343 ملازمین پر تنخواہوں کی مد میں سالانہ ایک ارب 43 کروڑ اور 53 لاکھ، 4 کروڑ 90 لاکھ روپے سکولوں کی مرمت اور دیگر ضروریات پر جبکہ ان سکولوں کی تعمیر پر 6 ارب 26 کروڑ 70 لاکھ روپے کے اخراجات اٹھائے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اب ان سکولوں کو بھی بند کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ سابقہ ادوار میں اربوں روپے کی لاگت سے بنائے گئے 978 سکولوں کو بند کرنے کے حوالے سے محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا حکام نے ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں حکومت کو بتایا گیا ہے کہ مزکورہ سکولز سابق ادوار میں غلط پالیسیوں اور تعلیم کی بجائے بھرتیاں کرنے کے لئے تعمیر کیے گئے۔ ان سکولوں میں بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ان پرسالانہ اخراجات قومی خزانے کے لئے بڑا بوجھ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 978 سکولوں میں 735 پرائمری، 232 مڈل اور 11 ہائی سکول شامل ہیں۔ ان سکولوں میں اساتذہ کی تعداد 2236 جبکہ دیگر ملازمین کی تعداد 1107 ہے۔ رپورٹ پالیسی کے مطابق 40 بچوں پر ایک استاد ہوتا ہے لیکن ان سکولوں میں 8 بچوں کے لئے ایک استاد ہے۔ ان سکولوں میں بچوں کی تعداد ہر سکول کے حساب سے تقریباْ 20 بنتی ہے جبکہ بعض سکولوں میں یہ تعداد 3 سے 4 سے زیادہ نہیں۔






پرویز خٹک دور میں سرکاری رقم خلاف ظابطہ اپنے پاس رکھنے کا انکشاف


انکشاف آڈیٹر جنرل کی رپورٹ 2015-16 میں کیا گیا، سرکاری خزانے کے 27 کروڑ 53 لاکھ ضوابط کیخلاف خرچے گئے

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے دور حکومت میں محکمہ ایکسائز ایند ٹیکسیشن کی جانب سے مختلف ٹیکسوں کی مد میں عدم وصولی اور ضوابط کے خلاف کروڑوں روپے سرکاری خزانے میں نکالتے ہوئے اپنے پاس رکھنے کا انکشاف کیا گیا ہے اور معاملہ صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چھان بین کیلئے بھجوا دیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے آڈٹ رپورٹ 2015-16 میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکیسشن کی جانب سے جن ٹیکسوں کی عدم وصولی کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں پراپرٹی ٹیکس کی مد میں 7 کروڑ 88 لاکھ 90 ہزار، خود مختار اداروں سے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں 2 کروڑ 90 لاکھ 20 ہزار سمیت کئی اداروں سے کروڑوں روپے وصول کیے گئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مجموعی طور پر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے حوالے سے 40 کروڑ 80 لاکھ 80 ہزار روپے کے آڈٹ پیپر صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ارسال کیے گئے ہیں جن کا جائزہ کمیٹی کے قیام کے بعد لیا جائے گا۔






پشاور سیف سٹی منصوبہ التوا کا شکار، فائلیں فنڈز نہ ملنے پر الماریوں کی نذر


9 سال میں خفیہ کیمرے بھی نہ لگے، زرعی تربیتی مرکز اور ہارون بلور پر خودکش حملوں اور دیگر وارداتوں کی ویڈیو بن سکتی تھیں

پشار شہر میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے، کھلے عام سڑکوں پر وارداتیں روکنے اور جرائم میں کمی کیلئے 2009 میں پولیس نے سیف سٹی پراجیکٹ کی حکمت عملی بنائی تاہم 9 سال گزرنے کے باوجود شہر کا حفاظتی منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ سیف سٹی پراجیکٹ کی فائلیں فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا رو رہی ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ یونٹ قائم ہونے کے باوجود منصوبے میں عملی طور پر پیشرفت نہیں ہو سکی۔ 2014 میں صوبائی حکمومت نے سیف سٹی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ڈیڑھ ارب روپے دینے کی حامی بھری لیکن یہاں بھی فنڈز کی کمی آڑے آ گئی۔ صوبے کی سروے رپورٹ کے مطابق پشاور میں 5546 کلوز سرکٹ کیمرے لگائے جانے تھے۔ 24 مرکزی شاہراہوں پر نصب کیے جانے تھے لیکن منصوبہ اب بھی التوا کا شکار ہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت شہر میں آسان ہو چکی ہے اور کسی وقت بھی کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔